صفائی
مومن ایک پاکیزہ انسان ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ایمان اس کی روح کو پاکیزہ بناتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں اس کا ظاہر بھی پاکیزہ ہو جاتا ہے۔ اس کا ایمانی مزاج اس کو ایک صفائی پسند انسان بنا دیتا ہے۔
مومن اپنی نماز کے لیے روزانہ کم از کم پانچ وقت ہاتھ، پائوں اور چہر ہ کو دھوکر وضو کرتا ہے۔ وہ روزانہ ایک بار نہا کر اپنے پورے جسم کو پاک کرتا ہے۔ اس کا کپڑا خواہ سادہ ہو، مگر وہ ہمیشہ دھلا ہوا صاف ستھرا کپڑا پہننا پسند کرتا ہے۔
اسی کے ساتھ وہ پسند کرتا ہے کہ اس کا گھر صاف ستھرا رہے۔ چنانچہ روزانہ گھر کی صفائی، سامان کو قرینہ سے رکھنا، ہر اس چیز سے گھر کو پاک رکھناجو بد بو یا گندگی پیدا کرنے والی ہو، یہ ساری چیزیں اس کی روزمرہ کی زندگی میں شامل ہو جاتی ہیں۔ مومن کو اس کے بغیر چین نہیں آتا کہ اس کے جسم سے لے کر اس کے گھر تک ہر چیز صاف ستھری رہے۔
صفائی کا یہ ذوق صرف اپنے جسم اور اپنے گھر تک محدود نہیں رہتا۔ اس کا یہ ذوق اس کے گھر کے باہر اس کے پڑوس تک پہنچ جاتا ہے۔ وہ چاہنے لگتا ہے کہ وہ جہاں رہے اس کا پورا ماحول صاف ستھرا رہے۔ وہ اس کا پورا اہتمام کرتا ہے کہ وہ یا اس کے گھر والے آس پاس کے ماحول کو گندہ کرنے کا سبب نہ بنیں۔ یہی تربیت وہ دوسروں کو بھی دیتا ہے۔ اس کو اس وقت تک چین نہیں آتاجب تک وہ اپنے پورے پڑوس میں صفائی ستھرائی کا ماحول قائم نہ کرلے۔
عام لوگوں کے لیے صفائی صرف صفائی ہے۔ مگر مومن کے لیے صفائی عام معنوں میں صفائی بھی ہے اور اسی کے ساتھ وہ ایک عبادت بھی ہے، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ خدا صاف ستھرے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔
مزید یہ کہ مومن کا ایمان اس بات کی ضمانت ہے کہ جب وہ اپنے جسم کو پاک صاف کرے تو اسی کے ساتھ اس کی روح بھی پا ک صاف ہو جائے۔ اس لیے کہ جب وہ جسمانی پاکی کا عمل کرتا ہے تو عین اسی وقت اس کی یہ دعا کہ خدایا تو میرے ظاہر کے ساتھ میرے باطن کو بھی پاک کر دے، اس کی روح کی پاکی کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے۔