تقویٰ
تقویٰ کے معنی ہیں پرہیز گاری۔ یعنی دنیا میں احتیاط اور پرہیز کے ساتھ زندگی گزارنا۔ محتاط زندگی کا نام متقیانہ زندگی ہے۔ اور غیر محتاط زندگی کا نام غیر متقیانہ زندگی۔
حضرت عمر فاروق ؓ نے ایک صحابی سے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اے امیر المومنین کیا آپ کسی ایسے راستے سے گزرے ہیں جس کے دونوں طرف جھاڑیاں ہوں۔ صحابی نے دوبارہ پوچھا کہ ایسے موقع پر آپ نے کیا کیا۔ انھوں نے جواب دیا کہ میں نے اپنے دامن سمیٹ لیے اور اپنے کو اس سے بچاتا ہوا گزر گیا۔ صحابی نے کہا کہ اسی کا نام تقویٰ ہے۔
موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں انسان کی آزمائش کے لیے مختلف قسم کے کانٹے بکھیر دیے گئے ہیں۔ کہیں منفی جذبات کا طوفان ہے۔ کہیں غیر سنجیدہ لوگوں کے چھیڑے ہوئے مسائل ہیں۔ کہیں دنیا کی کشش اپنی طرف کھینچ لینا چاہتی ہے۔ کہیں ایسے نا خوش گوا ر اسباب ہیں جو آدمی کے ذہن کو درہم برہم کر کے اس کو نیکی کے راستہ سے ہٹا دیں۔
یہ تمام چیزیں گویا کہ زندگی کے راستہ کے دونوں طرف کھڑی ہوئی کانٹے دار جھاڑیاں ہیں۔ ہر لمحہ یہ اندیشہ ہے کہ انسان کا دامن ان سے الجھ جائے۔ اور پھر آگے بڑھنے کے بجائے وہ انھیں چیزوں میں پھنس کر رہ جائے۔
ایسی حالت میں عقل مند وہ ہے جو دنیا کا راستہ اس طرح طے کرے کہ وہ اپنے دامن کو سمیٹے ہوئے ہو۔ وہ ناموافق چیزوں سے الجھنے کے بجائے ان سے اعتراض کرتے ہوئے آگے بڑھتا رہے۔ ہر حال میں اس کا ذہن یہ ہو کہ اس کو اپنے آپ کو سنبھالنا ہے۔ اس کو بچائو کا طریقہ اختیار کرنا ہے نہ کہ الجھائو کا طریقہ۔
انسان صحیح فطرت پر پیدا کیا گیا ہے۔ کوئی چیز رکاوٹ نہ بنے تو ہر انسان اپنے آپ صحیح رخ پر اپنا سفر طے کرے گا۔ اس لیے اصل اہتمام کی بات یہ ہے کہ آدمی غیر فطری رکاوٹوں کو اپنے لیے رکاوٹ نہ بننے دے۔ اس کے بعد وہ خود اپنی فطرت کے زور پر صحیح رخ اختیار کرے گا یہاں تک کہ وہ اپنے رب سے جا ملے۔