روحانیت
روحانیت کیا ہے۔ خدا نے اس کو ابدی طور پر گلاب کے پیڑ کے روپ میں دکھا رکھا ہے۔ گلاب کے پیڑ میں کانٹا بھی ہوتا ہے اور پھول بھی۔ نوکیلے کانٹوں کے ساتھ خدا اسی شاخ میں ایک پھول اگاتا ہے۔ جس میں مہک ہو، جس میں رنگ ہو، جو اپنی خوشبو سے دور تک کے لوگوں کو معطر کر دے۔
یہ ہے روحانیت کا قدرتی نمونہ۔ روحانیت نام ہے کانٹوں کے بیچ میں پھول بن کر رہنے کا۔ روحانیت یہ ہے کہ آدمی زندگی کے کانٹوں میں نہ الجھے۔ وہ بھڑکنے والی باتوں پر نہ بھڑکے۔ ناخوشگوار تجربات اس کے اعتدال کو بھنگ نہ کریں۔ دوسروں کا نا پسندیدہ روپ اس کے اندر غصہ اور انتقام کے جذبات نہ پیدا کرے۔ وہ خود اپنے اصول کے تحت جئے۔ اس کی ذہنی سطح اتنی بلند ہو چکی ہو کہ پتھر مارنے والے کا پتھر اس تک پہنچ ہی نہ سکے۔
روحانیت کو قرآن میں ربانیت کہا گیا ہے۔ یعنی رب میں جینا، رب والا بن کر رہنا، جو لوگ انسانی جھگڑوں میں جئیں وہ اپنے قریب کی باتوں سے اثر لیتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی روحانیت کبھی ترقی نہیں کرتی۔ مگر جو آدمی اپنے آپ کو اتنا اٹھائے کہ وہ اپنے فکرو خیال کے اعتبار سے ربانی سطح پر جینے لگے وہ لوگوں کی باتوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ ربانیت کی صورت میں وہ اتنی بڑی چیز پا لیتا ہے کہ ہر دوسری چیز اس کی نظر میں چھوٹی ہو جاتی ہے۔
ایسے آدمی کے اندر یہ طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ گالی سن کر مسکرا دے۔ وہ غصہ دلانے والی بات کو بھلا دے۔ وہ کانٹے کا استقبال پھول کے روپ میں کر سکے۔
روحانی انسان اپنی روحانیت یا ربانیت کی صورت میں اتنی بڑی چیز پا لیتا ہے کہ اس کے بعد کسی اور چیز کی تمنا نہیں رہتی۔ یہ چیز اس کے اندر حسد، خود غرضی اور استحصال کے جذبات کو ختم کر دیتی ہے۔ وہ اتنا زیادہ پا لیتا ہے کہ اس کے بعد کوئی اور چیز پانے کے لیے باقی نہیں رہتی۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے مجموعہ سے وہ سماج بنتا ہے جو سورج کی طرح چمکے اور باغ کے روپ میں لہلہائے۔