وقار کا مسئلہ نہ بنانا
قرآن میں اہل حکمت انسانوں کی صفت بتائی گئی ہے کہ وہ کسی مسئلہ کو وقار کا مسئلہ نہیں بناتے ہیں۔ قرآن کی وہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب کہ حدیبیہ کا معاہدہ طے ہورہا تھا۔ اس وقت اصحاب رسول کا حال کیا تھا، اس کو قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: إِذْ جَعَلَ الَّذِینَ کَفَرُوا فِی قُلُوبِہِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاہِلِیَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّہُ سَکِینَتَہُ عَلَى رَسُولِہِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِینَ وَأَلْزَمَہُمْ کَلِمَةَ التَّقْوَى وَکَانُوا أَحَقَّ بِہَا وَأَہْلَہَا وَکَانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمًا (48:26)۔ یعنی جب انکار کرنے والوں نے اپنے دلوں میں حمیت پیدا کی، جاہلیت کی حمیت، پھر اللہ نے اپنی طرف سے سکینت نازل فرمائی اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر، اور اللہ نے ان کو تقویٰ کی بات پر جمائے رکھا اور وہ اس کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے۔ اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
جب کسی اختلافی معاملہ میں دو گروہوں کے درمیان بات ہورہی ہو تو عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ جو فریق قومی حمیت میں مبتلا ہو، وہ چیزوں کو وقار کا مسئلہ (prestige issue) بنا لیتا ہے۔ اس بنا پر ایسے موقع پر پر امن معاہدہ عملا ً سخت مشکل بن جاتاہے۔ایسے موقع پر دانش مند گروہ وہ ہے جو چیزوں کو وقار کا مسئلہ نہ بنائے۔ وہ اعلیٰ اخلاق کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے، یک طرفہ طور پر صلح اور امن کا طریقہ اختیار کرنے کے لیے راضی ہوجائے۔ یہ لوگ دانش مند لوگ ہیں، اور ایسے ہی لوگ زندگی میں اعلیٰ کامیابی حاصل کرتے ہیں۔