فرشتے کی حمایت
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:بینما رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم جالس ومعہ أصحابہ وقع رجل بأبی بکر، فآذاہ، فصمت عنہ أبو بکر ثم آذاہ الثانیة، فصمت عنہ أبو بکر، ثم آذاہ الثالثة، فانتصر منہ أبو بکر، فقام رسول اللہ حین انتصر أبو بکر، فقال أبو بکر:أوجدت علی یا رسول اللہ؟ فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:نزل ملک من السماء یکذبہ بما قال لک، فلما انتصرت وقع الشیطان، فلم أکن لأجلس إذ وقع الشیطان (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 4896)۔یعنی رسول اللہ ایک باراپنےاصحاب کےساتھ تھے کہ ایک شخص نے ابوبکر صدیق کو برا بھلا کہا اور ان کو تکلیف پہنچائی، ابوبکر صدیق خاموش رہے، اس نے پھر دوسری بار ابوبکر صدیق کو اسی طرح تکلیف دی، ابو بکر صدیق پھربھی ان کے با رے میں خاموش رہے،اس نے تیسری بار بھی تکلیف پہنچائی تو ابوبکر صدیق نے اسے جواب میں کچھ کہہ دیا۔ ابوبکر صدیق نے جواب دیا تو رسول اللہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ دیکھ کر ابوبکر صدیق نے کہا یا رسول اللہ، کیا آپ مجھ پر ناراض ہیں؟ رسول اللہ نے کہا کہ آسمان سے ایک فرشتہ نازل ہوا وہ اس تکلیف پہنچانے والی کی تکذیب کرتا رہا، لیکن جب تم نے اسے جواب دے دیا تو شیطان آگیا، اور جب شیطان آجائے تو میں بیٹھنے والا نہیں۔
اس حدیث میں بظاہر ایک فرد کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک عام واقعہ ہے۔ اس کا تعلق انفرادی معاملات سے بھی ہے، اور اجتماعی معاملات سے بھی۔ یہ فطرت کا ایک قانون ہے کہ جب کوئی شخص مظلوم ہو، اور اپنی طرف سے کوئی کارروائی نہ کرے تو فرشتہ اس کی طرف سے کارروائی کرنے کے لیے آجاتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس، جب انسان اپنے معاملے کو خود اپنا معاملہ بنا کر جوابی کارروائی کرنا شرو ع کردے تو وہ اکیلا ہوجاتا ہے۔ جس آدمی کاساتھی فرشتہ ہو، وہ بلاشبہ سب سے زیادہ طاقت ور انسان ہے، اور جو آدمی اپنے معاملے کو خود اپنے ہاتھ میں لے لے تو اس وقت وہ ایک عام انسان بن جاتا ہے۔ اس کے بعد کچھ نہیں معلوم کہ وہ جیتے گا، یا فریق ثانی کے مقابلے میں ہار جائے گا۔ ایسی حالت میں وزڈم کیا ہے۔ وہ یہی ہے کہ آدمی خود کو طاقتور بنائے، کمزور نہ بنائے۔