ابتدائی منصوبہ پر نظر ثانی

موجودہ دنیا میں کوئی آدمی پیشگی طور پر بالکل درست منصوبہ نہیں بنا سکتا۔ جب آدمی کسی عمل کو شروع کرتا ہے تو بعد کو ایسے حالات پیش آتے ہیں، جو تقاضا کرتے ہیں کہ اپنے عمل کو نتیجہ خیز بنانے کےلیے اپنے عمل کی ری پلاننگ کی جائے۔ پیغمبر اسلام کے حکیمانہ طریقے کا ایک جز ء یہ بھی تھا۔ آپ ہمیشہ اس کے لیے تیار رہتے تھے کہ اگر ابتدائی منصوبہ میں کوئی کمی نظر آئے تو دوبارہ زیادہ قابل عمل انداز میں نیا منصوبہ بنایا جائے۔

اس کی ایک مثال یہ ہےکہ پیغمبر اسلام نے مکہ میں 610 عیسوی میں اپنا مشن شروع کیا۔ اس وقت کے مکہ میں آپ کے مشن کے لیے موافق ماحول موجود نہ تھا۔ چناں چہ وہاں کے لوگوں کی اکثریت آپ کے خلاف ہوگئی۔آپ کے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالنے لگے۔ اس وقت آپ نے اپنے دو ساتھیوں کو مدینہ بھیجا۔ تاکہ وہ اندازہ کریں کہ کیا مدینہ کے حالات مکہ کے مقابلے میں آپ کے لیے زیادہ موافق ہیں۔ یہ دونوں صاحبان مدینہ جاکر لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے تھے۔ اس لیے ان کو مقری کہا جاتا تھا۔ مدینہ کے لوگ برعکس طور پر کسی رکاوٹ کے بغیر اسلام قبول کرنے لگے۔ بیعت عقبہ اولیٰ اور بیعت عقبہ ثانیہ کا واقعہ اسی زمانے میں پیش آیا۔

مدینہ کے بارے میں اس مثبت تجربے کے بعدنبوت کے تیرھویں سال آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے جائیں، اور از سر نو اپنے مشن کا آغاز کریں۔ اسی کا نام ری پلاننگ (replanning) ہے، اور ری پلاننگ پیغمبر اسلام کے طریقۂ کار کا ایک اہم جزء ہے۔

پیغمبر اسلام کا یہ طریقہ نہ تھا کہ اپنے عمل کا کوئی نتیجہ نکلے یا نہ نکلے بدستور اپنے عمل کو جاری رکھیں، اور جو لوگ بے نتیجہ کام میں مارے جائیں، ان کو شہید کا لقب دے کر اس بے نتیجہ کام کو گلوریفائی(glorify) کریں۔ پیغمبر اسلام کی ایک سنت ری پلاننگ ہے۔ پہلا منصوبہ اگر بے نتیجہ ثابت ہو تو اس کے بعد بھی اس منصوبے کو بدستور جاری رکھنا، وہ مکمل طور پر پیغمبر اسلام کی پالیسی کے خلاف تھا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom