ہر مذہب کا احترام
پیغمبر اسلام جب چالیس سال کے ہوئے تو آپ پر پہلی وحی اتری۔ یہ تجربہ آپ کے لیے نہایت شدید تھا۔ اس سلسلے میں جو واقعات روایت کی کتابوں میں آئے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ خدیجہ نے آپ سے کہا کہ چلیے میں آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے چلتی ہوں۔ دیکھیے وہ کیا کہتے ہیں۔ ورقہ بن نوفل مکہ کے باشندے تھے۔ ان کی عمر نوےسال ہوچکی تھی۔ وہ مکہ کے ان لوگوں میں سے تھے، جن کو حنفاء کہا جاتاتھا۔ انھوں نے عبرانی زبان سیکھی تھی، اور تورات و انجیل کا مطالعہ کیا تھا۔ چناں چہ وہ نصرانی ہوگئے تھے۔ ورقہ نے جب آپ کی بات سنی تو انھوں نے کہا:یہی وہ ناموس ہے، جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ پر نازل کیا تھا، کاش میں نوجوان ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا، جب تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ! کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا، ہاں ! جو چیز تم لے کر آئے ہو، اس طرح کی چیز جو بھی لے کر آیا اس سے دشمنی کی گئی، اگر میں تیرا زمانہ پاؤں تو میں تیری پوری مدد کروں گا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3)۔
اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام کے لائے ہوئے دین میں مذہبی منافرت (religious hatred) کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ آپ کے لایا ہوا دین ہر مذہب کے لوگوں کے لیے یکساں خیر خواہی پر مبنی تھا۔ مزید یہ کہ یہ واقعہ صرف اخلاقی واقعہ نہیں، وہ اعلیٰ درجے کی دانش مندی ہے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام کے مشن میں میوچول لرننگ (mutual learning)کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اس ملاقات سے آپ کی پریشانی ختم ہوگئی، ورقہ بن نوفل کی باتوں سے آپ کو اپنے مشن کے بارے میں ایک نیا یقین حاصل ہوا۔ بعض سیرت نگاروں کے نزدیک ورقہ بن نوفل پہلے شخص تھے، جو آپ کے اوپر ایمان لے آئے۔