ہر حال میں مثبت طرز فکر
پیغمبر اسلام نے قدیم مکہ میں اپنا مشن 610 عیسوی میں شروع کیا۔ اس وقت مکہ میں قبائلی کلچر (tribal culture) شدت کے ساتھ موجود تھا۔ وہاں کے لوگوں نے آپ کے ساتھ ہر قسم کا برا سلوک کیا۔ یہاں تک کہ تیرہ سال بعد آپ نے مجبور ہوکر اپنے وطن کو چھوڑ دیا، اور مکہ سے تقریبا 500 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود مدینہ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مقیم ہوگئے۔
یہ شدید ترین معنوں میں جلاوطنی کا کیس تھا۔ عام رواج یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے نئے وطن میں جاکر صرف ایک کام کرتے ہیں، اور وہ اپنے سابق ہم وطنوں کی برائیاں بیان کرنا۔ لیکن پیغمبر اسلام نے اس سے الگ ایک انتہائی طور پر مختلف طریقہ اختیار کیا۔ وہ یہ کہ آپ مدینہ جاکر اس طرح رہنے لگے، جیسے کہ مکہ میں آپ کے ساتھ کچھ بھی نہ ہوا ہو۔
سیرت ابن ہشام میں ہجرت کے بعد کےواقعات کا ذکر ہے۔اس کے تحت پیغمبر اسلام کے پہلے خطبہ کا ذکر ہے۔ اس باب کا پہلا پیراگراف ان الفاظ میں آیا ہے :أَوَّلُ خُطْبَةٍ خَطَبَہَا رَسُولُ اللَّہ۔ یعنی پہلا خطبہ جو آپ نے مدینہ میں دیا۔
اس خطبہ کو جو پڑھے وہ حیرت انگیز طور پر پائے گا کہ اس خطبہ میں ان لوگوں کے خلاف کوئی شکایت کی بات نہیں ہے،جنھوں نے آپ کو اپنے وطن سے نکال دیا تھا۔عام رواج یہ ہے کہ ایسے موقع پر جلاوطن افراد اپنے نئے وطنی لوگوں کو ابھارتے ہیں تاکہ وہ ان کےساتھ اپنے قدیم ہم وطنوں کے خلاف جوابی کارروائی کریں۔ مگر پیغمبر اسلام نے اس قسم کی کوئی بات اشارے کی زبان میں بھی نہیں کی۔ اس خطبہ کا خلاصہ یہ تھا: فمن استطاع أن یقی وجہہ من النار ولو بشق من تمرة فلیفعل، ومن لم یجد فبکلمة طیبة (سیرت ابن ہشام، 1/500-1)۔
خطبہ کے مذکورہ الفاظ پر غور کیجیے۔ اس کا خلاصہ دوسرے لفظوں میں یہ ہے—— دوسرے لوگ آپ کو’’آگ‘‘ میں دھکیلنے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن آپ کا دل ان کی ہمدردی سے بھرا ہوا ہو۔ آپ ان کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اپنے آپ کو اللہ کی پکڑ سے بچاؤ۔ یہ ہے پیغمبرانہ حکمت۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ آپ کے دشمن بنیں، آپ ان کے خیر خواہ بن جائیں۔ جو لوگ آپ پر ظلم کریں، آپ اللہ سے ان کے لیے اچھے اجر کے طالب بن جائیں۔ جو لوگ آپ کو نہ دیں، آپ ان کے لیے دینے والے (giver) بن جائیں، اور ا ن کے لیے داعی بن کر ان کے ساتھ مدعو فرینڈلی روش اختیار کریں۔ پیغمبر اسلام کی یہ روش صرف ایک اخلاقی روش نہیں ہے، بلکہ وہ اعلیٰ درجے کی دانش مندی کا معاملہ ہے۔