اگلی نسل تک سے امید رکھنا

پیغمبر اسلام کی ایک گفتگو اپنی اہلیہ عائشہ کے ساتھ ان الفاظ میں آئی ہے: حضرت عائشہ سے روایت ہے،انہوں نے پیغمبر اسلام سے کہا کہ کیا یوم احد سے بھی سخت دن آپ پر آیا ہے، آپ نے کہا کہ میں نے تمہاری قوم کی جو جو تکلیفیں اٹھائی ہیں وہ اٹھائی ہیں، اور سب سے زیادہ تکلیف جو میں نے اٹھائی وہ عقبہ کے دن (طائف کے سفر میں)تھی جب میں نے اپنے آپ کو ابن عبد یا لیل بن عبدکلال کے سامنے پیش کیا تو اس نے میرے ساتھ وہ نہیں کیا جو میں نے چاہا، میں رنجیدہ ہو کر سیدھا چلا، ابھی میں ہوش میں نہ آیا تھا کہ قرن الثعالب میں پہنچ کر میں نے اپنا سر اٹھایا تو بادل کے ایک ٹکڑے کو اپنے اوپر سایہ فگن پایا، میں نے دیکھا کہ اس میں جبریل تھے،انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے آپ کی قوم کی گفتگو اور ان کا جواب سن لیا ہے، اب پہاڑوں کے فرشتہ کو آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ ایسے منکروں کے بارے میں جو چاہیں حکم دیں۔ پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتہ نے آواز دی اور سلام کیا پھر کہا کہ اے محمد، یہ سب کچھ آپ کی مرضی ہے، اگر آپ چاہیں تو میں اخشبین نامی دو پہاڑوں کو ان منکروں پر لا کر رکھ دوں تو پیغمبر اسلام نے فرمایا (نہیں) بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان منکروں کی نسل سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اسی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ بالکل شرک نہ کریں گے۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر3231)

اس کا مطلب یہ تھا کہ پیغمبر اسلام کا مشن انسان کی خیرخواہی کا مشن تھا۔ انسان کے ساتھ آپ کی خیرخواہی اتنی زیادہ بڑھی ہوئی تھی کہ اگر پہلی نسل آپ کے پیغام کو نہ سنے تو آپ اس کے لیے تیار تھے کہ ان کی اگلی نسلیں ان سے مختلف ثابت ہوں گی، اور آپ کے پیغام کو قبول کریں گی، اور آپ کے مشن میں آپ کی ساتھی بن جائیں گی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom