چیزوں کو بے آمیز صورت میں دیکھنا
پیغمبر اسلام کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ تھی:اللہم، أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ، وأرنا الباطل باطلا ووفقنا لاجتنابہ، ولا تجعلہ ملتبسا علینا فنضل، واجعلنا للمتقین إماما (تفسیر ابن کثیر، 1/571)۔ یعنی اے اللہ ہمیں حق کو حق کی صورت میں دکھا، اور اس کے اتباع کی توفیق دے، اور باطل کو باطل کی صورت میں دکھا، اور اس سے بچنے کی توفیق دے، اور اس کو ہمارے او پر ملتبس نہ کر کہ ہم گمراہ ہوجائیں، اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔ایک اور دعا ان الفاظ میں آئی ہے: اللہم أرنا الأشیاء کما ہی (تفسیر الرازی، 1/119)۔ یعنی اے اللہ، ہمیں چیزوں کو ویسا ہی دکھا جیسا کہ وہ ہیں۔
ان دونوں دعاؤں کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کے اندر یہ صفت پیدا ہو کہ وہ بے آمیز انداز میں سوچے۔ بے آمیز کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ذہنی اعتبار سے اتنا زیادہ ترقی یافتہ ہو کہ وہ حق کو حق کی صورت میں دیکھ سکے، اور باطل کو باطل کی صورت میں دیکھے۔ وہ چیزوں کو ویساہی دیکھے، جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں۔
یہ وہی سوچ ہے جس کو موضوعی سوچ (objective thinking) کہاجاتا ہے۔ یعنی اَیز اٹ از تھنکنگ (as it is thinking)۔آدمی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ کسی ماحول میں رہتا ہے۔ ماحول کے اثر سے اس کے اندر مختلف قسم کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے متاثر ذہن کے تحت چیزوں کے بارے میں رائے قائم کرنے لگتا ہے۔ یہی تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ اسی سے آدمی کے اندریہ کمزوری آجاتی ہے کہ وہ چیزوں کو ان کی حقیقت کے اعتبار سے نہیں دیکھ پاتا، بلکہ اپنے متاثر ذہن کے مطابق ایک خود ساختہ رائے بناتا ہے۔
جس انسان کے اندر ایز اٹ از تھنکنگ (as it is thinking)کی صفت ہو، وہ اس قابل ہوجاتاہے کہ مبنی بر حقیقت سوچے، مبنی بر حقیقت رائے قائم کرے، مبنی بر حقیقت منصوبہ بنائے۔یہ صفت کسی آدمی کو حکیم (man of wisdom) بناتی ہے، اور جو آدمی اس معنی میں حکیم (wise) ہو، وہی وہ انسان ہے جس کو سوپر مین (superman) کہا جاتا ہے۔