شکایت کے بجائے تدبیر
پیغمبر اسلام کی زندگی کا ایک واقعہ یہ ہے کہ8 ہجری میں مکہ فتح ہوا۔ اس کے بعد آپ مکہ سے طائف کے لیے روانہ ہوئے۔ اس وقت آپ کے ساتھ تقریباً بارہ ہزار افراد تھے۔ درمیان میں ایک راستہ آیا، جس کو تنگ ہونے کی وجہ سے الضیقہ کہا جاتا تھا۔ آپ نے کہا: ما اسم ہذا الطریق؟ فقیل لہ الضیقة، فقال:بل ہی الیسرى (سیرت ابن ہشام، 2/482)۔ یعنی اس راستے کا نام کیا ہے، لوگوں نے کہا : ضیقۃ (تنگ)۔ آپ نے کہا نہیں بلکہ یہ یسریٰ (آسان)ہے۔
اس کے بعد غالباً آپ نے ایساکہا کہ اس وقت تم لوگ افقی دائرہ(horizontal way) میں پھیلے ہوئے ہو، تم ایسا کرو کہ عمودی طریقہ (vertical way) میں ہوجاؤ۔ یعنی قطار بنا کر گزرو۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا، اور نہایت آسانی سے وہ راستہ پار ہوگئے۔
یہ آپ کی پیغمبرانہ حکمت کی مثال ہے۔ یعنی جب کوئی مشکل کا سامنا پیش آئے تو شکایت کا طریقہ اختیار مت کرو، بلکہ تدبیر کا طریقہ اختیار کرو۔ اگر تم ایسا کروگے تو بہت جلد تم کو ایک تدبیر دریافت ہوجائے گی، اور تم اس تدبیر کو اختیار کرکے آسانی کے ساتھ اپنا راستہ طے کرلوگے۔
عام طور پر لوگوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ چیزوں کو ان کے فیس ویلو (face-value) پر لیتے ہیں۔ یہ طریقہ وزڈم کے خلاف ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ چیزوں کو ان کی اصل حقیقت کے اعتبار سے لے۔ اس طرح مسئلہ کوئی مزید دشواری کے بغیر بآسانی حل ہوجائے گا۔