ایک اجتماعی حکمت
حدیث کی کتابوں میں رسول اللہ کے زمانے کا ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں :أن أعرابیا بال فی المسجد، فثار إلیہ الناس لیقعوا بہ، فقال لہم رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:دعوہ، وأہریقوا على بولہ ذنوبا من ماء، أو سجلا من ماء، فإنما بعثتم میسرین ولم تبعثوا معسرین (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6128)۔ یعنی ایک دیہاتی نے مدینہ کی مسجد میں پیشاب کر دیا، لوگ اس کی طرف غصہ ہو کراس کوپکڑنے کے لیے بڑھے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اسے چھوڑ دو اور جہاں اس نے پیشاب کیا ہے اس جگہ پر پانی بھرا ہوا ایک ڈول بہادو، کیونکہ تم آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو، تنگی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے۔
اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعی معاملہ میں پیغمبر اسلام کا اصول کیا تھا۔ وہ اصول رعایت پر مبنی تھا۔ یعنی لوگوں کے ساتھ سخت گیری کا معاملہ نہ کرنا۔ بلکہ نرمی اور رعایت کا معاملہ کرنا۔ مزید اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعی زندگی میں اگر کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آئے تواس کو وہیں کا وہیں ختم کردیا جائے، اس کو مزید بڑھنے کا موقع نہ دیا جائے۔ اس طرح کے واقعے میں ایسا ہوتا ہے کہ ابتدائی غلطی ہمیشہ ایک چھوٹی غلطی ہوتی ہے، لیکن اگر اس واقعے پر شدید رد عمل ظاہر کیا جائے تو ایک چھوٹا واقعہ بڑھ کر ایک بڑا واقعہ بن جائے گا۔ حتی کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ایک چھوٹا واقعہ بڑھتے بڑھتے بڑے فساد کی صورت اختیار کرلے۔ اجتماعی معاملات میں اسلام کا طریقہ تیسیر کا طریقہ ہے، نہ کہ تعسیر کا طریقہ۔