باشعور انسان کا معاملہ
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عجبا لأمر المؤمن، إن أمرہ کلہ خیر، ولیس ذاک لأحد إلا للمؤمن، إن أصابتہ سراء شکر، فکان خیرا لہ، وإن أصابتہ ضراء، صبر فکان خیرا لہ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2999)۔ اس حدیث میں مومن سے مراد معروف معنوں میں صاحب عقیدہ انسان نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد باشعور انسان ہے۔ اس سے مراد وہ انسان ہے جو صاحب معرفت انسان ہو، جو تدبر اور تفکر کی صفت کا حامل ہو۔ جس نے مطالعہ اور غور و فکر کے ذریعہ اپنے آپ کو ایک تیار ذہن (prepared mind) بنا یا ہو۔
ایسا انسان ہر چیز میں اس کے اندر چھپی ہوئی تخلیقی حکمت کو دریافت کرلیتا ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ اس کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا ہے، اس کے اندر یقینا کوئی گہری حکمت موجود ہے۔ وہ چیزوں کو ذاتی نگا ہ سے نہیں دیکھتا، بلکہ تخلیق کی حکمت کے اعتبار سے دیکھتا ہے۔ اس ربانی طرز فکر کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ منفی میں مثبت کو دیکھنے والا بن جاتاہے۔ وہ اپنے مائنس پوائنٹ میں اپنے پلس پوائنٹ کو دریافت کرلیتا ہے۔ وہ بظاہر ناامیدی میں امید کے پہلو کوجان لیتا ہے۔ وہ موت میں زندگی کا سرمایہ دریافت کرلیتا ہے۔وہ اپنی شعوری بلندی کی بنا پر شکست میں فتح کا راز دریافت کرلیتا ہے۔