قناعت واحد حل ہے
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:لو کان لابن آدم وادیان من مال لابتغى ثالثا، ولا یملأ جوف ابن آدم إلا التراب، ویتوب اللہ على من تاب (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6436)۔ یعنی اگر انسان کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تووہ تیسری کا خواہشمند ہو گا، اور انسان کا پیٹ مٹی کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی،اور اللہ اس شخص کی توبہ قبول کرتا ہے جو توبہ کرے۔
انسان پیدائشی طور پر لامحدود کا طالب ہے۔ کوئی محدود چیز خواہ بظاہر کتنی ہی بڑی دکھائی دے، وہ کبھی انسان کو مطمئن کرنے والی نہیں۔انسان کو اس دنیا میں عملاً جو کچھ ملتا ہے، وہ ہمیشہ محدود ہوتا ہے۔ طلب اور مطلوب میں یہی تضاد ہے، جو ہمیشہ انسان کو غیر مطمئن رکھتا ہے۔
انسان کا یہ عدم اطمینان (discontentment) بے فائدہ نہیں۔ ا س کے پیچھے ایک اہم تخلیقی حکمت ہے۔ وہ حکمت یہ ہے کہ انسان اپنا مطلوب آخرت کو بنائے، نہ کہ دنیا کو۔ انسان کو پیدائشی طور پر معیار کا طالب (ideal seeking) بنا یا گیا ہے۔ جب کہ دنیا میں اس کے لیے جو قابل حصول چیزیں ہیں، وہ اس کی طلب سے بہت کم ہیں۔ آدمی بہت چاہتا ہے، مگر ہمیشہ اس کو کم ملتا ہے۔ آدمی ہمیشہ بہت زیادہ کا منصوبہ بنا تا ہے لیکن اپنے منصوبہ کی تکمیل سے پہلے انسان اس دنیا سے چلاجاتا ہے۔
طالب اور مطلوب میں یہ فرق اس لیے نہیں ہے کہ آدمی غیر مطئن بنا رہے۔ بلکہ وہ اس لیے ہے کہ انسان غور و فکر کے ذریعہ یہ دریافت کرے کہ اس کی طلب کا مطلوب کہاں ہے۔ جو آدمی اس طرح سوچے وہ دانشمندانہ سوچ کا حامل بنے گا۔ وہ اپنی زندگی کی صحیح منزل کو جان لے گا۔ وہ جان لے گا کہ اس کے مطلوب کا نہ ملنا ایک اہم حکمت کے سبب سے ہے۔ وہ اس لیے ہے کہ اس کا ذہن ہمیشہ متحرک رہے، وہ کبھی جمود کا شکار نہ ہونے پائے۔
دنیا میں انسان کا یہ عدم اطمینان اس کو ابدی جنت کا طالب بناتا ہے۔ وہ اس پر غور و فکر کرکے اپنے مقصد اصلی کو جان لیتاہے۔ وہ یہ جان لیتا ہے کہ اس کو کس طرح سچا طالب (true seeker) بننا چاہیے۔یہ چیز آدمی کو بھٹکنے سے بچا کر صحیح رخ پر سوچنے والا بنا دیتی ہے۔ جوآدمی اس طرح سوچے وہ کبھی منفی سوچ کا شکار نہ ہوگا، وہ ہمیشہ مثبت سوچ کا حامل بنا رہے گا، اور اس دنیا میں سب سے بڑی سوچ مثبت سوچ ہے۔