انسان رخی طرز فکر

پیغمبر اسلام کا ایک واقعہ حدیث کی کتابوں میں ان الفاظ میں آیا ہے:کان سہل بن حنیف، وقیس بن سعد قاعدین بالقادسیة، فمروا علیہما بجنازة، فقاما، فقیل لہما إنہا من أہل الأرض أی من أہل الذمة، فقالا:إن النبی صلى اللہ علیہ وسلم مرت بہ جنازة فقام، فقیل لہ:إنہا جنازة یہودی، فقال:ألیست نفسا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1312)۔یعنی سہل بن حنیف اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہما قادسیہ میں ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں کچھ لوگ ادھر سے ایک جنازہ لے کر گزرے تو یہ دونوں کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے کہاکہ جنازہ تو ذمیوں کا ہے ( جوغیر مسلم ہیں)۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اسی طرح سے ایک جنازہ گزرا تھا۔ آپ اس کے لیے کھڑے ہو گئے۔ پھر آپ سے کہا گیا کہ یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ نے فرمایا کیا وہ انسان نہیں؟

اس حدیث سے ایک اہم بات معلوم ہوتی ہے، اور وہ سماجی دانش مندی(social wisdom) ہے۔ سماج یا انسانی اجتماع ہمیشہ مختلف قسم کے انسانوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اس بنا پر یہ ممکن ہوتا ہے کہ لوگوں میں اختلافات پیدا ہوجائیں۔ لوگ کسی کو اپنا دشمن سمجھیں، اور کسی کو دوست، لوگ کسی کو اپنا سمجھیں اور کسی کو غیر، کسی کے بارے میں وہ مثبت ہوں اور کسی کے بارے میں منفی۔ یہ کلچر پورے سماج کو ابدی طور پر غیر معتدل سماج بناد یتا ہے۔

اس لیے اس طرح کی صورت حال کا بہترین حل یہ ہے کہ ہر انسان کو انسان سمجھا جائے۔ ہر انسان کے بارے میں انسان رخی رویہ(human-friendly behaviour) اختیار کیا جائے۔ ہر انسان کو اپنے جیسا انسان سمجھا جائے۔ اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کی عزت (mutual respect) کا طریقہ اختیار کیا جائے۔

پیغمبر اسلام نے خود اپنے عمل سے اس کا نمونہ قائم کیا۔ جیسا کہ معلوم ہے مدینہ ایک مختلف مذاہب کا معاشرہ تھا۔ پیغمبر اسلام نے اپنے عمل سے یہ ماڈل قائم کیا کہ ہر ایک انسان کے ساتھ یکساں طور پر عزت کا معاملہ کرنا۔ ہر انسان کو یکساں طور پر ایک ہی خالق کا پیدا کیا ہوا انسان سمجھنا۔

یکساں طور پر ہر ایک سے باعزت سلوک کا معاملہ صرف اخلاقی بات نہیں۔ اس کا تعلق براہِ راست طور پر انسان کی ترقی سے ہے۔ ایسے ماحول میں سماج کا ہر فرد ایک دوسرے کا خیرخواہ ہوگا۔ ہر انسان قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کا مالک ہوگا۔ ہر انسان کو یہ موقع ہوگا کہ وہ خود بھی ترقی کرے، اور دوسروں کو بھی ترقی کا موقع دے۔ اس کے برعکس، اگر لوگ اس احساس میں جئیں کہ فلاں شخص ان کا اپنا ہے، اور فلاں شخص ان کا غیر۔ تو ایسے سماج کا ہر فرد اپنی سوچ کے اعتبار سے غیر معتدل ہوجائے گا۔ وہ خود بھی سماج کا ایک پرابلم ممبر (problem member) بنا رہے گا، اور دوسروں کو بھی بلا اعلان یہ دعوت دے گا کہ تم بھی سماج کے پرابلم ممبر بن جاؤ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom