نتیجہ خیز طریقہ
قدیم مکہ میں آپ کے مخالفین کا ظلم بہت زیادہ بڑھ گیا تھا تو آپ کے اصحاب میں اس کے خلاف جوابی عمل کا ذہن پیدا ہوا۔ لیکن اس کے جواب میں پیغمبر نے جو طریقہ اختیار کیا، اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے:قال عمر:یا رسول اللہ علام نخفی دیننا ونحن على الحق، ویظہر دینہم وہم على الباطل؟ قال:یا عمر إنا قلیل قد رأیت ما لقینا (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، 1/441)۔ یعنی عمر فاروق نے کہا، اے اللہ کے رسول ہم کیوں اپنے دین کو چھپائیں، حالاں کہ ہم حق پر ہیں، اور وہ اپنے دین کو ظاہر کریں حالاں کہ وہ باطل پر ہیں۔ آپ نے کہا: اے عمر ہم تھوڑے ہیں، اور تم نے دیکھا ہےجو ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔
اس معاملےکی اصل یہ ہے کہ پیغمبر اسلام قدیم مکہ میں اپنا مشن اس انداز میں چلارہے تھے، جس کو لوپروفائل میں کام کرناکہا جاتا ہے۔ قدیم مزاج کے تحت عرب کے لوگ اس طریقے سے مانوس نہ تھے۔ وہ اس کو دب کر کام کرنا سمجھتے تھے۔ ان کی سوچ یہ تھی کہ ہم جب حق پر ہیں تو ہم لوگوں سے کیوں دب کر کام کریں۔
اس کے جواب میں پیغمبر اسلام نے کہا کہ ہم تھوڑے ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ کام کرنے کا نتیجہ خیز طریقہ وہ ہے جب کہ اپنی طاقت کے مطابق کام کیا جائے۔ جو ش وخروش کے تحت بڑے بڑے اقدام کرنا، دانش مند آدمی کا طریقہ نہیں۔