پرامن تعلقات
پیغمبر اسلام جب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے۔ اس وقت مدینہ میں اسلام کافی پھیل چکا تھا۔ اس وقت آپ اپنے رفیق ابوبکر صدیق کے ساتھ مدینہ میں داخل ہوئے تھے۔ چناں چہ مدینہ والوں نے آپ دونوں کا استقبال یہ کہہ کر کیا کہ آمنین مطاعین (مسند احمد، حدیث نمبر12234)۔ یعنی آپ دونوں یہاں مامون ہیں، اور ہمارے سردار ہیں۔ مگر پیغمبر اسلام نے مدینہ میں اپنی حکومت نہیں قائم کی، بلکہ آپ نے ایک صحیفہ (Madinah Declaration) جاری کیا، جس میں یہ درج تھا کہ للیہود دینہم، و للمسلمین دینہم(سیرۃ ابن ہشام1/503)۔ یعنی یہود کے لیے یہود کا دین ہے، اور مسلمانوں کے لیے مسلمانوں کا دین۔ آج کل کی زبان میں اس کو پرامن بقائے باہم (peaceful co-existence) کہا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی پالیسی ہر صورت حال میں امن پسندی کی پالیسی ہوتی تھی۔ آپ نے کبھی اس کے خلاف عمل نہیں کیا۔
تجربہ بتاتا ہے کہ پر امن بقائے باہم انسانی تعلقات میں سب سے بہتر اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس اصول کو اختیار کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر فریق کو مساوی طور پر آزادی حاصل ہوجاتی ہے۔ ہر فریق کو یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ پر امن دائرے میں اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ غیر ضروری ٹکراؤ سے بچتے ہوئے ہر ایک اپنا سفر حیات طے کرے۔