چھوٹی برائی پر راضی ہونا

پیغمبر اسلام کے معاصر اہل ایمان کو اصحاب رسول کہا جاتا ہے۔یہ اصحاب رسول مسلسل طور پر پیغمبر اسلام کے زیر تربیت تھے۔اصحاب رسول نے کچھ باتوں کو پیغمبر اسلام کی طرف منسوب کرکے ان کو قول رسول کے طور پر بیان کیا ہے، ان کو حدیث کہا جاتا ہے۔ اس کے سوا بہت سی باتیں ایسی ہیں، جن کو اصحاب رسول نے رسول کا حوالہ دیے بغیر اپنے طور پر بیان کی ہیں۔ اس قسم کی باتوں کو اَثر کہا جاتا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ یہ باتیں بھی پیغمبر اسلام کی تعلیم کردہ باتیں ہیں۔ اگر چہ کتابوں میں وہ اَثارِ صحابہ کے طور پر نقل ہوئی ہیں۔

انھیں میں سے ایک وزڈم کی بات وہ ہے جو صحابی رسول حبیب بن خماشة کے حوالے سے حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ اس اثر کے الفاظ یہ ہیں : من لا یرضى بالقلیل مما یأتی بہ السفیہ یرضى بالکثیر (المعجم الاوسط للطبرانی، اثر نمبر2258)۔ یعنی جو شخص نادان کے چھوٹے شر پر راضی نہ ہوگا، اس کو نادان کے بڑے شر پر راضی ہونا پڑے گا۔

یہ ایک دانشمندانہ اصول ہے۔زندگی میں کامیابی کے لیے یہ بے حد ضروری اصول ہے۔ اصل یہ ہے کہ خالق نے ہر انسان کو مکمل آزادی دی ہے۔ یہ آزادی براہ راست طور پر خالق کا ایک عطیہ ہے۔ کوئی بھی شخص اس آزادی کو انسان سے چھین نہیں سکتا۔ یہ آزادی برائے امتحان ہے۔ اللہ رب العالمین کو دیکھنا ہے کہ کون شخص اپنی ملی ہوئی آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے، اور کون شخص اپنی آزادی کاغلط استعمال کرتا ہے۔اسی صحیح استعمال یا غلط استعمال پر انسان کے ابدی انجام کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ یہ آزادی خالق کے تخلیقی منصوبہ کا ایک حصہ ہے، اور جو چیز تخلیقی منصوبہ کا حصہ ہو اس کو ختم کرنا کسی بھی شخص کے لیے ممکن نہیں۔

ایسی حالت میں انسان کے لیے صرف دو میں سےایک کا انتخاب (option) ہے۔ یا تو وہ دوسرے انسانوں کی آزادی کو روکنے کے لیے ہمیشہ ان سے لڑتا رہے، اور کبھی کامیاب نہ ہوسکے۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ آدمی اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے آرٹ آف مینجمنٹ (art of management) کو سیکھے۔ وہ دوسروں کی ناپسندیدہ روش کو مینج کرتے ہوئے اپنا راستہ بنائے۔ یعنی وہی طریقہ جس کوشارع عام (public road) پر چلتے ہوئے ہر آدمی اختیار کرتا ہے، اورکامیابی کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچتا ہے۔

اس اصول کواستعمال کرنے کی صورت میں کبھی کبھی ایسا بھی ہوگا کہ ایک آدمی کو دوسرے آدمی کی آزادی سے کچھ نقصان پہنچے گا۔ دانش مند آدمی کو چاہیے کہ وہ ایسے نقصان کو نظر انداز کرے۔اگر وہ ایسا کرے کہ اس قسم کے نقصان کو برداشت کرنے کے بجائے، اس پر لڑائی شروع کردے تو ایسا ٹکراؤ صرف اس کے نقصان میں اضافہ کرے گا۔ اس لیے دانش مندی کا اصول یہ ہے کہ کم نقصان پر راضی ہوجاؤ، تاکہ اپنے آپ کو بڑے نقصان سے بچا سکو۔

یہ اصول ایک عام اصول ہے۔ خاندانی زندگی میں بھی، سماجی زندگی میں بھی، اور قومی زندگی میں بھی۔ عقل مند آدمی کو چاہیے کہ وہ ایسے نقصان کو تجربہ (experience) کے خانے میں ڈال دے۔ وہ ایسے نقصان سے سبق سیکھے۔ وہ ایسے نقصان سے اپنے لیے بہتر منصوبہ بندی (planning)کا راز دریافت کرے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom