انجام کو دیکھنا
پیغمبر اسلام کا یہی حکیمانہ طریقہ آپ کے پورے تیرہ سالہ مکی دور میں جاری رہا۔ اس معاملے کی ایک اور مثال یہ ہے کہ آپ کی نبوت کے انیسویں سال طویل گفت و شنید کے بعد قدیم مکہ کے لیڈروں کے ساتھ یہ طے ہوا کہ دونوں فریقوں کے درمیان دس سال کے لیے امن کا معاہدہ (treaty of peace) ہوجائے۔ حدیبیہ کے مقام پر یہ گفت و شنید ہورہی تھی۔ جب معاہدہ لکھنے کا وقت آیا تو آپ نے اس معاہدہ کے آغاز میں لکھوایا:اے علی لکھو، بسم اللہ الرحمن الرحیم، تو مکہ کے نمائندہ لیڈر سہیل بن عمرو نے کہا، ہم اس کو نہیں جانتے، آپ لکھیں، باسمک اللہم، آپ نے ایسا ہی کیا۔پھر آپ نے کہا، لکھو یہ وہ (دفعات) ہیں، جن پر محمد رسول اللہ نے سہیل بن عمر و سےصلح کی۔ تو سہیل بن عمرو نے دوبارہ کہا، اگر میں مانتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو میں آپ سے جنگ نہیں کرتا،یعنی آپ "رسول اللہ" کا لفظ مٹائیں، آپ نے ایساہی کیا، اور کہا لکھو، یہ وہ دفعات ہیں، جن پر محمد بن عبد اللہ نے سہیل بن عمرو سے صلح کی کہ دس سال تک جنگ نہیں ہوگی، اس میں لوگ امن سے رہیں گے (مسند احمد، حدیث نمبر 18910)۔
اس معاہدہ کے معاملے میں متعلق پہلو یہ تھا کہ کسی بھی طریقے سے دونوں فریق کے درمیان امن قائم ہوجائے۔ اس معاملے میں یہ غیر متعلق پہلو تھا کہ معاہدہ میں کس قسم کے الفاظ لکھے جائیں۔ چناں چہ رسول اللہ نے یہ حکیمانہ طریقہ اختیار کیا کہ متعلق پہلو کو لیا، اور غیر متعلق پہلو کو نظر انداز کردیا۔ اس طرح یہ معاہدۂ امن کسی مزید رکاوٹ کے بغیر معتدل طور پر عمل میں آگیا۔