حقیقت پسندانہ مزاج
پیغمبر اسلام نے اپنی امت کو ایک حکمت کی بات ان الفاظ میں بتائی:لا تطرونی، کما أطرت النصارى ابن مریم، فإنما أنا عبدہ، فقولوا عبد اللہ، ورسولہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3445)۔ یعنی میرابیان بڑھا چڑھا کر نہ کرو، جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم کابیان کیا۔ میں تو صرف اس کا بندہ ہوں، اس لئے یہی کہا کروکہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔
کسی کا ذکر بڑھا چڑھا کر کرنا، یہ ایک ہلاکت خیز کلچر ہے۔ یہ کلچر پہلے پیغمبر سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ ایک عام اسلوب بن جاتا ہے۔ اس سے قوموں میں حقیقت پسندانہ سوچ کا مزاج ختم ہوجاتا ہے۔ لوگوں کی سوچ، لوگوں کی منصوبہ بندی، ہر چیز غیر حقیقت پسندانہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس لیے پیغمبر اسلام نے اس کلچر سے اپنی امت کو شدت کے ساتھ روکا۔
یہ کلچر اس طرح آتا ہے کہ لوگ پہلے اپنے پیغمبر کو شہنشاہ کونین، اور سرور دوعالم جیسے مبالغہ آمیز انداز میں ذکر کرتے ہیں۔پھر یہ کلچر عام ہوکر دوسرے مفروضہ بڑوں کے لیے بولاجانے لگتا ہے۔ مثلاً امام، اکابر، شیخ العالم اور قائم الزماں، سید الملت، وغیرہ۔ یہ سب قصیدہ خوانی کی زبان ہے۔ اور قصیدہ خوانی کی زبان ہمیشہ لوگوں کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) کا عمل روک دیتی ہے۔ لوگ اجتہاد کے بجائے تقلید کا طریقہ اختیارکرلیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے اندر ماضی پر فخر اور حال پر قناعت کا مزاج چھا جاتا ہے۔ ایسے لوگ دوبارہ کوئی بڑا کام کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ ان کا مزاج وہی بن جاتا ہے جس کو شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا— کیا قدیم شعراء نے پیوند کے برابر کوئی جگہ چھوڑی ہے(ہل غادر الشعراء من متردم)۔