غصہ سے بچو
ایک آدمی پیغمبر اسلام کے پاس آیا۔ اس نے کہا: أخبرنی بکلمات أعیش بہن ولا تکثر علی فأنسى؟ قال:اجتنب الغضب، ثم أعاد علیہ فقال:اجتنب الغضب(مسند احمد، حدیث نمبر23468)۔ یعنی مجھے ایسی بات بتائیے، جس میں میں جیوں، اور بات مختصر ہو تا کہ میں اس کو بھول نہ جاؤں۔ آپ نے کہا: غصہ سے بچو، اس نے اپنی بات کو دہرائی، آپ نےدوبارہ کہا: غصہ سے بچو۔
اس حدیث پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ غصہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ غصہ کوئی آدمی دوسرے کے خلاف کرتا ہے۔ لیکن غصہ کا نقصان آدمی کو خود بھگتنا پڑتا ہے۔ غصہ آدمی کی سوچ کو غلط رخ پر موڑ دیتا ہے۔ عام حالت میں آدمی مثبت انداز میں سوچتا ہے۔ وہ معتدل انداز میں رائے قائم کرتا ہے۔ لیکن غصہ آتے ہی اس کی سوچ غیر معتدل ہوجاتی ہے۔ وہ حقیقت پسندانہ انداز میں سوچنے کے قابل نہیں رہتا۔ جو آدمی غصہ میں مبتلا ہوجائے، وہ جذبات کے تحت ایسے فیصلے کرتا ہے، جو جذبات سے خالی آدمی کبھی نہیں سوچے گا۔
غصہ کا سب سے زیادہ تباہ کن انجام یہ ہے کہ غصہ ہمیشہ دو طرفہ بن جاتا ہے۔ آپ غصہ ہو کر دوسرے شخص کو بھی غضبناک بنادیتے ہیں۔ غصہ دوسرے شخص کو جوابی غصہ میں مبتلا کردیتا ہے۔ اس طرح غصہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے ردعمل (reaction) کا سبب بنتا ہے۔ آپ ایک ردعمل ظاہر کرتے ہیں، اس کے بعد دوسرا آدمی مشتعل ہوکر ردعمل کا طریقہ اختیار کرلیتا ہے۔ یہ عمل اور ردعمل باربار ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ردعمل ایک چین ری ایکشن (chain reaction) بن جاتاہے۔ اور جب کوئی چیز چین ری ایکشن بن جائے تو پھر اس کا خاتمہ آخری ہلاکت سے پہلے نہیں ہوتا۔
اس لیے غصہ کے بعد آدمی کے لیے جو صحیح رویہ ہے، وہ صرف ایک ہے۔ وہ ہے غصہ کو یک طرفہ طورپر ختم کردینا۔ یہی بات قرآن میں ان الفاظ میں کہی گئی ہے:وَإِذَا مَا غَضِبُوا ہُمْ یَغْفِرُونَ (42:37)۔ یعنی جب ان کو غصہ آتا ہے تو وہ معاف کردیتے ہیں۔ غصہ کے نقصان سے بچنے کے لیے یک طرفہ صبر کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔