مستقبل کی پلاننگ

مستقبل کی پلاننگ کے لیے پیشگی گائڈ لائن

پیغمبر اسلام کا ظہور ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں ہوا۔ آپ خاتم النبیین (Final Prophet) ہیں، آپ کی نبوت کی عمر 23سال تھی۔ لیکن اللہ کی توفیق سےآپ نے امت محمدی کو پیشگی طور پر ایسی گائڈ لائن بتادی جو انسانی تاریخ کے آخری دور تک کو کور (cover) کرنے والی تھیں۔

پیغمبر اسلام نے امت محمدی کو جو گائڈ لائن دی، اس کا ایک حصہ ایسا تھا جو ہر زمانے کےلیے قابل تطبیق (applicable) تھا۔ یہ حصہ فقہ کی صورت میں مدون ہوگیا۔ مگر اسی کے ساتھ دوسرا حصہ وہ تھا جو مستقبل کے اعتبار سے تھا۔ اس حصہ میں پیغمبر اسلام نے معاصر زبان میں مستقبل کی باتیں کہیں۔ دوسرے لفظوں میں روایتی دور میں وہ باتیں کہیں جو بعد کو سائنٹفک ایج میں رہنما بننے والی تھیں۔ اس دوسرے حصہ کو سمجھنے کے لیے صرف قرآن و حدیث کا روایتی علم کافی نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کو دور مابعد، دوسرے الفاظ میں سائنٹفک ایج (scientific age) کا گہرا فہم (deep understanding) حاصل ہو، دین کی صرف روایتی معرفت اس کے لیے کافی نہیں۔اس حیثیت سے یہاں موضوع کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔

اس پہلو سے غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و سنت میں پہلی نوعیت کی باتیں حکم کی زبان میں ہیں۔ جب کہ دوسری نوعیت کی باتیں خبر کی زبان میں آئی ہیں۔ یہ فرق گویا ایک سراغ (clue) ہے جو زیر نظر پہلو کا مطالعہ کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔

1 - مثلاً قرآن کی آیتوں میں سے ایک آیت یہ ہے:تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (25:1)۔ یعنی بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ جہان والوں کے لئے ڈرانے والا ہو۔

یہاں خبر کے اسلوب میں یہ کہا گیا ہے کہ قرآن عالمین (تمام اقوام عالم) کے لیے نذیر (warning) ہے۔ یہاں غور طلب ہے کہ ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں وہ اسباب موجود ہی نہ تھے، جن کو استعمال کرکے تمام اقوام عالم تک قرآن پہنچایا جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی اس آیت کا متضمن مفہوم(implied meaning) یہ ہے کہ مستقبل میں ایک ایسازمانہ آئے گا، جب کہ مختلف زبانوں میں قرآن کے ترجمے تیارکرکے ان کو تمام قوموں تک ان کی قابل فہم زبانوں میں پہنچانا ممکن ہو جائے گا۔ اس وقت امت محمدی کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ اس کا منصوبہ بنائے، اور اس کو اس کے تمام تقاضوں کے تحت انجام دے۔ ان الفاظ میں واضح طور پر اس دور کی طرف اشارہ ہے جب کہ دنیا میں پرنٹنگ پریس، اور کمیونی کیشن آچکا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ دور آجائے تب امت محمدی پر اس دور کا استعمال برائے دعوت اسی طرح فرض ہوجائے گا جس طرح نماز اور روزہ ابدی طور پر فرض ہے۔

2 - قرآن میں اس نوعیت کی ایک اور آیت ان الفاظ میں آئی ہے: سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (41:53)۔یعنی آئندہ ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور انفس میں۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔ یہاں آفاق سے مراد مادی دنیا(material world) اور انفس سے مراد انسانی دنیا (human world) ہے۔

قرآن کی اس آیت میں آنے والے سائنسی دور کی طرف اشارہ ہے۔ اس میں امت محمدی کو یہ رہنمائی دی گئی ہے کہ جب وہ سائنسی دور دنیا میں آجائے تو تم فور اًاس کو پہچان لینا، اور از سر نو سائنس کی دریافت کردہ حقائق کی روشنی میں اپنے دعوتی مشن کی منصوبہ بندی کرنا۔ تاکہ لوگوں کو ان کی اپنی مسلمہ عقلی بنیاد (rational ground) پر حقائق اسلام کا اظہار ہوجائے۔

3 - اسی طرح احادیث میں اس نوعیت کی مختلف پیشین گوئیاں آئی ہیں۔ مثلا ایک روایت کے مطابق قدیم مکہ کے قریش کے مطالبے پر آپ نے بتایا تھا : کلمة واحدة تعطونیہا تملکون بہا العرب، وتدین لکم بہا العجم (سیرت ابن ہشام،1/417)

اس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اس آنے والے دور کی طرف اشارہ ہے، جب کہ دنیا میں مکمل طور پر امن (peace) کا زمانہ آجائے گا۔ جب کہ یہ ممکن ہوجائے گا کہ کسی رکاوٹ کے بغیر توحید کی آئڈیا لوجی پر نان پولیٹکل ایمپائر قائم کیا جاسکے۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ جب وہ دور آجائے تو امت محمدی کو چاہیے کہ وہ نفرت اور تشدد اور جنگ کی تمام صورتوں کو یک طرفہ طور پر ختم کردے، اور پیدا شدہ مواقع کوپرامن طور پر استعمال کرتے ہوئےتو حید کی بنیاد پر ایک نان پولیٹکل ایمپائر (non-political empire)قائم کردے۔

4 - اسی طرح پیغمبر اسلام کی ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے:لا یبقى على ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام (مسند احمد، حدیث نمبر 23865)۔ یعنی روئے زمین پر کوئی بھی چھوٹا یا بڑا گھر نہ بچےگا، مگر اس میں اللہ اسلام کا کلمہ داخل کردےگا۔

اس حدیث میں مستقبل کی امت محمدی کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ جب یہ دور آجائے تو تم اس دور کو پہچانو۔ اس وقت تم ان تمام سرگرمیوں کو بند کردو، جس سے اس دور کے مواقع کو استعمال کرنا تمھارے لیے ناممکن ہوجائے۔ اس وقت تم یک طرفہ منصوبہ بندی کے ذریعہ آنے والے مواقع کو پر امن طور پر استعمال کرو، اور دین اسلام کو ہر گھر میں پہنچادو۔ یہ دور جب آئے گا تو وہ اپنے آپ سب کچھ نہیں کر ڈالے گا، بلکہ امت محمدی کو اس وقت کی ضرورت کے مطابق، دانش مندانہ منصوبہ بندی کرنی پڑے گی۔

5 - دور دجال کی روایتوں میں سے ایک روایت وہ ہے جس میں دجا ل کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ دجال جب بولے گا، اس کی آواز مشرق و مغرب میں سنائی دے گی۔ چوتھے خلیفہ علی بن ابی طالب، پیغمبر اسلام کا نام لیے بغیر دجال کے بارے میں کہتے ہیں :ینادی بصوت لہ یسمع بہ ما بین الخافقین (کنزالعمال، حدیث نمبر 39709)۔ یعنی وہ ایسی آواز میں پکارے گا، جو مشرق و مغرب کے درمیان سنائی دے گی۔

محدثین کی تقسیم کے مطابق یہ ایک موقوف روایت ہے۔ لیکن تاریخی اعتبار سے دیکھیے تو یہ ایک ثابت شدہ روایت ہے۔ کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کے زمانے میں ایسے ذرائع وجود میں آئے، مثلاً انٹرنیٹ۔ اب ایک انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ ایک جگہ سے بولے، اور اس کی آواز زمین کے کسی بھی حصہ میں سنائی دے۔ اس لحاظ سے اس روایت میں مستقبل کے ایک امکان کا ذکر ہے۔ یعنی اس دور کا ذکرہے جب کہ کسی بھی شخص کے لیے یہ ممکن ہوجائے کہ وہ زمین کے کسی بھی حصہ میں ایک دعوتی سینٹر بنائے، اور اس کے ذریعہ وہ دین حق کی باتوں کو اس طرح نشر کرے، کہ وہ ساری دنیا کے لوگوں کے لیے اس کا دیکھنا اور سننا پوری طرح ممکن ہوجائے۔

اس معاملے کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اکیسویں صدی میں وہ دور پوری طرح آچکا ہے۔ اب کھلے طور پر یہ ممکن ہو گیا ہے کہ امت محمدی کے لوگ اٹھیں، اور موجودہ زمانے کے مواقع (opportunities) کو استعمال کرتے ہوئے اس پیشین گوئی کو عالمی سطح پر واقعہ بنادیں، جو ان الفاظ میں آئی ہے:لیبلغن ہذا الأمر ما بلغ اللیل والنہار (مسند احمد، حدیث نمبر 16957)۔ یعنی یہ امر ضرور وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک رات اور دن پہنچتے ہیں۔

ایک حدیث کے مطابق، دور آخر میں سب سے بڑا دعوتی واقعہ ظہور میں آئے گا۔ اس واقعہ کے لیے حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں :ہذا أعظم الناس شہادة عند رب العالمین (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938)۔ یعنی اللہ رب العالمین کے نزدیک یہ سب سے بڑی گواہی ہوگی۔ یہاں شہادت سے مراد دعوت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ کے آخری زمانے میں ایک ایسا عظیم دعوتی واقعہ پیش آئے گا، جو شہادت اعظم (greatest witness) کے ہم معنی ہوگا۔

شہادت اعظم کوئی پر اسرار واقعہ یا معجزاتی واقعہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ قوانین فطرت کے مطابق انجام پائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں مسلسل طور پر تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ تبدیلیوں کے اس عمل کے بعد اس کے نقطۂ انتہا (culmination) کے طور انتہائی عظیم وسائل انسان کی دسترس میں آجائیں گے۔اس وقت فطری طور پر یہ ممکن ہوجائے گا کہ دعوت الی اللہ کے کام کو اس کی عظیم ترین صورت میں انجام دیا جاسکے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom