انتظار کی حکمت
زندگی کی ایک حکمت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بتائی ہے:أفضل العبادة انتظار الفرج (سنن الترمذی، حدیث نمبر 3571)۔ یعنی کشادگی کا انتظار کرنا، ایک افضل عبادت ہے۔ انسان جب کوئی کام کرتا ہے، تو اس میں ایک فیصد حصہ اس کی اپنی کوشش کا ہوتا ہے، اور ننانوے فیصد حصہ فطرت کے قانون (law of nature) کا۔ فطرت کا قانون خالق کا مقرر کردہ ہے، وہ اپنی رفتار سے چلتا ہے۔ ایسی حالت میں اگر انسان جلدی نہ کرے، اور انتظار کی پالیسی اختیار کرے تو گویا کہ وہ فطرت کے عمل (process) کی تکمیل کا انتظار کر رہا ہے۔ اس بنا پر اس کا انتظار ایک عبادت بن جاتا ہے۔ اس قسم کی عبادت ایک اعلیٰ درجے کی حکمت (wisdom)ہے۔
ایک مسیحی پادری اپنے گھر کے سامنے ایک ہرا بھرا درخت دیکھنا چاہتا تھا۔ انھوں نے یہ منصوبہ بنا یا کہ وہ ایک ہرا بھرا درخت لائیں، اور اپنےگھر کے سامنے اس کو لگادیں۔ انھوں نے کچھ مزدوروں کی مدد سے ایسا ہی کیا۔ لیکن اگلی صبح کو جب وہ اٹھے تو درخت کے پتے مرجھا چکے تھے۔ چند دن کے بعد درخت پوری طرح سوکھ گیا۔ اس وقت ان کے ایک دوست ان سے ملنے کے لیے آئے۔ انھوں نے دیکھا کہ اس کا پادری دوست بہت زیادہ غمگین ہے۔ دوست نے اس کا سبب پوچھا۔ پادری نے کہا، میں جلدی میں ہوں، مگر خدا جلدی نہیں چاہتا:
I am in hurry, but God isn't
اس کا مطلب یہ تھا کہ خدا کے قانون کے مطابق، اپنے گھر کے سامنے ایک ہرا بھرا درخت دیکھنے کے لیے مجھے دس سال کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اگر میں چاہوں کہ ایک دن کے اندر میرے گھر کے سامنے ہرا بھرا درخت کھڑا ہوجائے تو ایسا ہونا فطرت کے قانون کے مطابق ممکن نہیں۔
آدمی کو چاہیے کہ جب وہ کوئی منصوبہ بنائے تو اپنی خواہش کی بنیاد پر منصوبہ نہ بنائے، بلکہ غور کرکے یہ سمجھے کہ فطرت کے قانون کے مطابق منصوبے کی تکمیل کے لیے کتنی مدت درکار ہے، اور اس مدت کو اپنے پروگرام کا جزء قرار دے۔ یہی اس دنیا میں دانش مندی کا اصول ہے۔