ایک دانش مندانہ اصول
پیغمبر اسلام کی وفات 632 عیسوی میں ہوئی۔ آپ کے بعد اسلام کی تاریخ میں خلافت کا دور آیا۔ یہ دور تقریباً 33 سال چلا۔ آخر زمانے میں مسلمانوں میں باہمی قتال شروع ہوگیا۔ اس میں لوگ بڑی تعداد میں مارے گئے۔ اس کے بعد امیر معاویہ کا دور شروع ہوا، جو خلافت پر مبنی نہ تھا،بلکہ خاندانی حکومت (dynasty) کے طریقے پر مبنی تھا۔
خلافت کا طریقہ قرآن کی آیت وَأَمْرُہُمْ شُورَى بَیْنَہُمْ (42:38) کے اصول پر قائم تھا۔ یعنی لوگوں کے مشورے پر صاحب امر کا انتخاب۔ یہ عملا وہی طریقہ تھا جس کو موجودہ زمانے میں جمہوریت (democracy) کہا جاتا ہے۔ امیر معاویہ خود بھی ایک صحابی رسول تھے، اس کے علاوہ اس زمانے میں بڑی تعداد میں اصحاب رسول موجود تھے۔ لیکن تمام صحابہ اس تبدیلی پر راضی ہوگئے۔ صحابہ اور تابعین کے پورے دور میں اس کے خلاف بغاوت (revolt) نہیں ہوئی۔
حکومت کے نظام میں یہ تبدیلی اس وقت ہوئی جب کہ پیغمبر اسلام کے تربیت یافتہ اصحاب اور اصحاب کے تربیت یافتہ تابعین بڑی تعداد میں موجود تھے۔ نظام حکومت میں اس تبدیلی پر کوئی مخالفت نہیں ہوئی۔ مزید یہ کہ دور صحابہ کے بعد جو ادوار آئے، مثلاً محدثین کا دور، فقہاء کا دور، علماء کا دور، ان سب نے اس تبدیلی کو عملا قبول کرلیا۔
یہ تبدیلی پیغمبر اسلام کی تعلیمات سے انحراف کا نتیجہ نہ تھی۔ بلکہ وہ پیغمبر کی تعلیمات کے عین مطابق تھی۔ پیغمبر کی سیرت کے مطالعے سے معلو م ہوتا ہے کہ آپ کے اصولوں میں سے ایک اصول یہ تھا کہ— جب نظری حکمت (theoretical wisdom) قابل عمل نہ ہو تو اس وقت عملی حکمت (practical wisdom) کو اختیار کرلیا جائے۔ کیوں کہ اس طرح کے معاملے میں اصل مطلوب چیز استحکام (stability) ہے۔ پیغمبر اسلام کے بعد جب لوگوں نے دیکھا کہ خلافت کے تحت سیاسی استحکام (political stability) حاصل نہیں ہوا، جب کہ خاندانی حکومت کے تحت سیاسی استحکام حالات کے اعتبار سے قابل عمل (workable) طریقہ ہے، تو انھوں نے یہ کیا کہ اس معاملے میں پہلے آپشن(first option) کے بجائے دوسرےآپشن (second option) کو اختیار کرلیا۔ اسی دانش مندی کا یہ نتیجہ تھا کہ اسلام کی تاریخ اس کے بعد مستحکم انداز میں بدستور تقریبا ہزار سال تک چلتی رہی۔
جیسا کہ معلوم ہے، بعد کے زمانے میں امت کے علماء نے اس اصول پر اتفاق کرلیا کہ قائم شدہ حکومت کے خلاف خروج کرنا حرام ہے۔ جیسا کہ امام النووی (وفات676:ھ) کے الفاظ ہیں :وأما الخروج علیہم وقتالہم فحرام بإجماع المسلمین وإن کانوا فسقة ظالمین(شرح صحیح مسلم للنوی،12/229)۔ اس مسئلہ میں علمائے امت کا یہ اجماع بلاشبہ نظری حکمت کی بنیاد پر نہ تھا، بلکہ وہ عملی حکمت(practical wisdom) کی بنیاد پر تھا۔