زراعت وآبپاشی

قدیم زمانے میں فطرت کے جن مظاہر کو خدائی اوصاف کا حامل سمجھ لیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک دریا تھا۔ دریاؤں کے متعلق یہ عقیدہ تھا کہ ان کے اندر پر اسرار قسم کی خدائی روح پائی جاتی ہے۔ یہی روح دریاؤں کو چلاتی ہے ، اور دریاؤں کو انسان کے لیے نفع بخش یا نقصان رساں بناتی ہے۔ (EB-17/129)

قدیم یونان میں سکا منڈ روز (Skamandros)دریا کے متعلق یہ عقیدہ تھا کہ وہ تولید اور زرخیزی کی صلاحیت رکھتی ہے۔ چنانچہ 14 ویں صدی قبل مسیح کا ایک یونانی مقرر کہتا ہے کہ ہماری لڑکیاں شادی سے پہلے اس مقدس دریا میں نہاتی ہیں ، اور کہتی ہیں کہ ’’سکا منڈروز ، میرے کنوار پن کو قبول کر ‘‘۔ مختلف ملکوں میں ایسی ساحرانہ رسوم ادا کرنے کا رواج رہا ہے ، جس میں دریا کا پانی عورت کو حاملہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ (EB-12/882)

دریاؤں کو مقدس ماننے کی وجہ سے یہ ہوا کہ لوگ دریاؤں کو پوجنے لگے۔ وہ ان کے نام پر نذر اور قربانی پیش کرنے لگے۔ اس طرح دریاؤں کی تقدیس کے نظریے نے دریاؤں کی تسخیر کا ذہن پیدا ہونے نہیں دیا۔ لوگ دریاؤں کو مقدس دیوتا کے روپ میں دیکھتے تھے، نہ کہ ایک عام طبیعی واقعہ کے روپ میں جس کو سادہ انسانی تدبیر کے ذریعہ استعمال کیا جا سکے۔

یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے میں دریاؤں کا زرعی استعمال نہایت محدود رہا۔ آب پاشی (irrigation) کی تاریخ حیرت انگیز طور پر انسان کی جدید تاریخ سے تعلق رکھتی ہے۔

اسلام کے ذریعہ جب توحید کا انقلاب آیا، اور انسان پر یہ کھلا کہ دریا ایک مخلوق ہے، نہ کہ خالق۔ وہ ایک بندہ ہے، نہ کہ خدا۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ انسان بڑے پیمانے پر دریاؤں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی بات سوچ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تاریخ میں یہ پڑھتے ہیں کہ اسپین کے مسلمانوں نے جتنے بڑے پیمانہ پر آب پاشی کا نظام قائم کیا، اس کی کوئی دوسری مثال ان سے پہلے کسی قوم میں نہیں ملتی۔

اسپین کے مسلمانوں نے زراعت کو اس قدر ترقی دی کہ وہ ایک مکمل فن بن گیا۔ انھوں نے درختوں کا مطالعہ کیا، اور زمین کی خاصیت سے واقفیت حاصل کی۔ اسپین کے لاکھوں مربع میل جو ویران پڑے ہوئے تھے ، مسلمانوں نے ان کو میوہ دار درختوں اور لہلہاتے ہوئے کھیتوں کی صورت میں بدل دیا۔ چاول ، گنا ، روئی ، زعفران ، انار ، آڑو ، شفتا لو ،وغیرہ جو موجودہ اسپین میں کثرت سے پائے جاتے ہیں، وہ مسلمانوں ہی کے ذریعہ اسپین کو ملے۔ انھوں نے اندلوسیہ اور اشبیلیہ کے صوبوں میں زیتون اور خرما کی کاشت کو زبردست ترقی دی۔ غرناطہ اور مالقا کے علاقوں میں انگوروں کی پیداوار بڑے پیمانے پر ہونے لگی۔

چارلس سینو بوس (فرانسیسی مصنف ) نے لکھا ہے کہ اسپینی عربوں نے نہروں کے ذریعہ آبپاشی کا طریقہ اختیار کیا۔ انھوں نے بڑے بڑے کنویں کھدوائے۔ جنھوں نے پانی کے نئے منبع کا پتہ چلایا ان کوانعامات دئے۔

مختلف قطعات زمین میں پانی کی تقسیم کی اصطلاحیں وضع کیں۔ اسپین میں آبپاشی کے لیے بڑی بڑی نہریں بنوائیں اور پھر ان سے چھوٹی چھوٹی شاخیں نکالیں۔ ان کی بدولت بلنیہ (Valencia) کا بنجر میدانی علاقہ سر سبز وشاداب علاقہ بن گیا۔ انھوں نے نہر کا مستقل محکمہ قائم کیا، جس سے نہروں پر آبپاشی کے متعلق ہر قسم کی معلومات حاصل کی جا سکتی تھیں۔

اسپینی زراعت کو عربوں نے جو ترقی دی، اس کا تذکرہ کرتے ہوئے پروفیسر ہٹی نے لکھا ہے کہ یہ زرعی ترقی مسلم اسپین کے شاندار کارناموں میں سے ایک تھی ، اور وہ اس ملک کے لیے عربوں کا ایک مستقل تحفہ تھا۔ اسپینی باغات آج بھی ان کے نشان کے طور پر محفوظ ہیں:

This agricultural development was one of the glories of Moslem Spain and one of the Arab’s lasting gifts to the land, for Spanish gardens have preserved to this day a  ‘‘Moorish’’ imprint . (History of the Arabs, p. 528)

برٹرینڈرسل نے مسلم اسپین کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عرب اقتصادیات کی ایک ممتاز صفت ان کی زراعت تھی۔ خاص طور پر ان کا نہایت ماہرانہ انداز میں آبپاشی کا نظام قائم کرنا، جس کو انھوں نے اپنی صحرائی زندگی سے سیکھا تھا، جہاں پانی کی بہت کمی تھی۔ اسپینی زراعت آج تک بھی عرب آب پاشی کے نظام سے فائدہ اٹھا رہی ہے :

One of the best features of the Arab economy was agriculture, particularly the skillful use of irrigation, which they learnt from living where water  is scarce. To this day Spanish agriculture profits by Arab irrigation works. (A History of  Western Philosophy, p. 416)

یہ ایک حقیقت ہے کہ اسپین میں جو مسلمان گئے ، وہاں انھوں نے ایک نیا زرعی انقلاب برپا کر دیا۔ وہاں انھوں نے کھیتوں اور باغوں کی آبپاشی کا ایسا نظام قائم کیا جس کی نظیر ان سے پہلے کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ برٹرینڈر سل نے عجیب وغریب طور پر ان کے اس کارنامہ کو ان کی صحرائی زندگی سے جوڑ دیا ہے۔ یہ توجیہ سراسر بے معنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے اس کارنامے کا اصل سبب وہ موحدانہ انقلاب تھا، جس نے عربوں کے ذہن کو یکسر بدل دیا۔ پچھلے لوگ دریاؤں اور چشموں اور سمندروں کو خدا کے روپ میں دیکھتے تھے۔ وہ ان کو احترام کی چیز سمجھتے تھے، نہ کہ استعمال وتسخیر کی چیز۔ عربوں نے اپنے بدلے ہوئے ذہن کے تحت ان چیزوں کو مخلوق کے روپ میں دیکھا۔ انھوں نے ان کو اس نظر سے دیکھا کہ وہ کس طرح ان کو مسخر کریں ،اور اپنے کام میں لائیں۔ یہی وہ ذہنی انقلاب ہے، جس نے عربوں کو اس قابل بنایا کہ وہ زراعت اور آبپاشی کی دنیامیں تاریخی کارنامہ انجام دے سکیں۔

صحرا کی زندگی جہاں پانی کم پایا جاتا ہو، وہاں آبپاشی کے اصول کس طرح سیکھے جا سکتے ہیں۔ برٹرینڈر سل کو عربوں کی اس صفت کا صحیح ماخذ معلوم نہ تھا، اس لیے بالکل غیر متعلق طور پر اس نے ان کو ان کی بے آب وگیاہ زندگی سے جوڑ دیا۔ حالانکہ صحیح طور پر وہ ان کے اس ذہنی انقلاب سے جڑتا ہے جو توحید کے ذریعہ ان کے اندر پیدا ہوا تھا۔ یہ موحدانہ زندگی کا نتیجہ تھا ،نہ کہ صحرائی زندگی کا نتیجہ۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom