ایک واقعہ

پہلے زمانے میں جب ایک شخص کو سماجی امتیاز کا تجربہ ہوتا تھا تو وہ اس کو اپنے مقدر کا نتیجہ سمجھ کر چپ رہ جاتا تھا۔ قدیم زمانے میں پہلی بار یہ واقعہ ہوا کہ حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں مصر کے مسلمان گورنر (عمرو بن العاص ) کا لڑکا ایک قبطی کو کوڑا مارتا ہے، اور مارتے ہوئے کہتا ہے :خذها وأنا ابن الأكرمين(یہ لو، میںایک معزز صاحبزادہ ہوں)۔ اس قبطی کو نئے انقلاب کی خبر تھی۔ چنانچہ وہ مصر سے روانہ ہو کر مدینہ آیا اور خلیفه ثانی عمر فارووق ؓ سے شکایت کی کہ ان کے گورنر کے لڑکے نے ناحق اس کو کوڑے سے مارا ہے۔ خلیفہ ثانی فوراً اپنے ایک خاص آدمی کو مصر بھیجتے ہیں کہ وہاں جاؤ اور عمرو بن العاص اور ان کے لڑکے جس حال میں ہوں ، اسی حال میں ان کو سواری پر بیٹھا کر مدینہ لے آؤ۔

دونوں مدینہ لائے جاتے ہیں۔ خلیفہ ثاني عمر قبطی کو بلاتے ہیں ،اور کہتے ہیں کہ کیا یہی شخص ہے، جس نے تم کو کوڑے سے مارا تھا۔ قبطی نے کہا ہاں۔ آپ نے قبطی کو کوڑا دیا ،اور کہا کہ معزز صاحبزادہ ( ابن الأكرمين ) کو مارو۔ قبطی نے مارنا شروع کیا، اور اس وقت تک مارتا رہا جب تک اس کو پوری تسکین نہ ہو گئی۔ اس کے بعد خلیفہ ثانی قبطی سے کہتے ہیں کہ ان کے والد عمرو بن العاص کو بھی مارو۔ کیونکہ انھیں کی بڑائی کے بل پر بیٹے نے تمہیں مارا تھا۔ (فوالله ما ضربك إلا بفضل سلطانه)۔ مگر قبطی کہتا ہے کہ نہیں ، جس نے مجھے مارا تھا ، اس کو میں نے مار لیا۔ اس سے زیادہ کی مجھے حاجت نہیں۔

جب یہ سب ہو چکا تو خلیفہ ثانی نے گورنر مصر عمرو بن العاص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا مذكم تعبدتم الناس وقد ولدتهم أمهاتهم أحرارا( تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا لیا، حالاں کہ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد پیدا کیا تھا)۔محض الصواب ، ابن المبرد الحنبلي، جلد2، صفحہ 473؛ فتوح مصر وأخبارها لابن عبد الحكم، صفحہ183

محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروؤں کے ذریعہ لائے ہوئے اس انقلاب نے سارے عالم میں اونچ نیچ کی دیواریں گرا دیں۔ مساوات انسانی کا ایک نیا دور شروع ہو گیا جو بالآخر جدید جمہوری انقلاب تک پہنچ گیا۔

قدیم زمانے کی حکومتیں مشرکانہ عقائد پر قائم تھیں۔ عوام سورج اور چاند کو پوجتے تھے، اور حکمراں افراد لوگوں کو یقین دلاتے تھے کہ وہ ان دیوتاؤں کی اولاد ہیں۔ اسی سے سورج بنسی اور چاند بنسی خاندانوں کے عقائد پیدا ہوئے۔ اسی لیے قدیم زمانے کے حکمراں مذکورہ قسم کے توہماتی عقائد کو اور پختہ کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ لوگ یہ عقیدہ رکھیں کہ بادشاہوں کی موت سے سورج گرہن اور چاند گرہن واقع ہوتا ہے تاکہ ان کی اہمیت لوگوں کے دماغوں پر قائم رہے ،اور وہ کامیابی کے ساتھ ان کے اوپر حکومت کرتے رہیں۔

اس طرح قدیم زمانے کے حکمراں گویا شرک اور توہم پرستی کے سر پرست بنے ہوئے تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حکمراں ہوتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ سورج اور چاند گرہن سادہ طبیعیاتی واقعات ہیں نہ کہ کسی انسان کی عظمت کا اظہار ، تو اس کے بعد توہم پرستی اور مظاہر فطرت کی تعظیم کی جڑ کٹ گئی۔ اور تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا جب کہ گردوپیش کی چیزوں کے بارے میں الو ہیت اور تقدس کا عقیدہ ختم ہو گیا، اور ان کے بارے میں وہ حقیقت پسندانہ ذہن پیدا ہونا شروع ہوا، جس کو موجودہ زمانہ میں سائنسی ذہن کہا جاتا ہے۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ انسان کو صرف یہی چیز نہیں ملی۔ اسی کے ساتھ مزید یہ ہوا کہ آپ نے جو خدائی کتاب انسان کے حوالے کی۔ اس میں زوروشور کے ساتھ یہ بات بتائی گئی کہ زمین وآسمان کی تمام چیزیں انسان کے لیے مسخر کر دی گئی ہیں اس سے یہ ذہن پیدا ہوا کہ ان چیزوں کی تسخیر کر کے انھیں اپنے کام میں لانے کی ضرورت ہے ، نہ یہ کہ ان کو عظیم اور برتر سمجھ کر ان کے آگے سر جھکایا جائے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom