علم اللسان

          زبان کے بارے میں توہماتی عقائد کی بنا پر علم اللسان ماضی میں سخت نا مساعد حالات کا شکار رہا ہے۔ حتی کہ ہزاروں سال تک اس کی ترقی رکی رہی۔ علم لسان کے ایک ماھر ڈاکٹر گلز  (Dr. Ernest Gellner) نے لکھا ہے کہ فلسفہ لسانیات میں الٹا طرز فکر پایا جاتا ہے۔ وہ حقیقی خیالات کو بیماری سمجھتا ہے۔ اور مردہ خیالات اس کے نزدیک صحت کا نمونہ ہیں :

Linguistic philosophy has an inverted vision which treats genuine thought as a disease and dead thought as a paradigm of health.

قدیم زمانے میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ تحریر (خط ) دیوتاؤں کا عطیہ ہے۔ مثلاً ہندستان میں ’’ برہم لیپی ‘‘ کا عقیدہ۔ الفاظ اور ترکیبیں دیوتاؤں کی مقرر کردہ ہیں، اور اس بنا پر وہ اعلیٰ ترین تعظیم (Highest veneration) کی مستحق ہیں۔ جان اسٹونس (John Stevens) کی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے مشرق کی مقدس کتابت :

Sacred Calligraphy of the East

اس میں اس نے اپنی یہ تحقیق پیش کی ہے کہ مقدس خط کا عقیدہ صدیوں تک دنیا میں جاری رہا ہے۔ اس بارے میں تو محققین کے درمیان اختلاف ہے کہ فن تحریر اولاً کہاں پیدا ہوا۔ مصر میں یا چین میں یا ہندستان میں، یا کسی اور مقام پر۔ تاہم اس امر میں علما لغت متفق ہیں کہ تمام قدیم قوموں میں یہ عقیدہ مشترک طور پر پایا جاتا رہا ہے کہ تحریر خدائی چیز ہے۔ یہ اپنی ذات میں مقدس ہے۔ تحریر دیوتاؤں کی زبان ہے :

One idea, however, is common to all ancient systems. Writing is divine. It is inherently holy. Writing is the speech of the gods.

تاریخ بتاتی ہے کہ انسانی زبانیں ہزاروں سال تک توہمات (superstitions) کاشکار رہی ہیں۔ یہ فرض کر لیا گیا کہ بعض زبانیں خدائی اصل  (divine origin) رکھتی ہیں، اور ان کے بولنے والوں کو دوسری زبانوں پر خصوصی درجہ حاصل ہے۔ مثلاً یونانی زبان کے متعلق عرصے تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ وہ تمام دوسری زبانوں سے اعلیٰ ہے۔ وہ دیوتاؤں کی زبان ہے۔ دوسری زبانیں اس کے مقابلے میں وحشیوں کی زبانیں ہیں ، وغیرہ۔

یہی معاملہ عبرانی کا ہوا۔ یہودی اور مسیحی دنیا میں صدیوں تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ عبرانی زبان خدا کی اپنی زبان ہے۔ وہ سب سے پہلے دنیامیں بولی گئی۔ ونڈرلی اور نیڈاز بانوں پر مسیحی عقائد کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جن عوام نے لسانی ترقی کو روکا ،ان میں سے ایک قدیم مسیحی مؤلفین کا یہ عقیدہ تھا، جو نشاۃ ثانیہ کے دور میں شدت سے چھایا رہا کہ دنیا کی تمام زبانیں عبرانی سے نکلی ہیں :

One of the factors which retarded linguistic progress was the belief among early Christian writers and persisting well into the Renaissance era, that all languages were derived from Hebrew. (William L. Wonderly and Eugene Nida in  ‘‘Linguistic and Christian Mission’’ Anthropological Linguistics, vol. 5, pp. 104-144)

چنانچہ صدیوں تک یورپ کے علمائے لسان لا حاصل طور پر عبرانی کی افضلیت ثابت کرنے کی کوششوں میں مشغول رہے۔ وہ ہر زبان کا رشتہ عبرانی سے ثابت کرتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علم اللسان ترقی نہ کر سکا۔ اٹھارھویں صدی میں جب یہ فکر مغلوب ہو گیا، اس وقت یورپ کی مختلف زبانوں کا علم اللسان ترقی کرنا شروع ہوا۔

خدائی زبان (divine language)کا تصور مکمل طور پر توہمات کی پیداوار ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ جب کسی زبان کی بابت یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ خدا کی یاد یوتاؤں کی زبان ہے ، تو اس کا لازمی مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ مقدس زبان کی حیثیت حاصل کر لیتی ہے۔اب وہ لوگوں کی نظر میں قابل احترام ہوتی ہے، نہ کہ قابل تحقیق۔ اس کے بعد اس زبان کا تنقیدی جائزہ لینا ، اس کو مزید آگے بڑھانے کے لیے کسی نئے انداز کی وکالت کرنا، سب بدعت قرار پاتا ہے۔ وہ اس کے تقدس کو توڑنے کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ ایسی ہر تحقیق لوگوں کو بے جا جسارت نظر آنے لگتی ہے نہ کہ اس کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش۔

یہ صورت جو زبانوں کے ساتھ پیش آئی ، یہی قدیم زمانہ میں دوسرے تمام انسانی شعبوں کا بھی حال رہا ہے۔ بے شمار قسم کے توہماتی عقائد تھے جنھوں نے انسان کی فکری ترقی کو روک رکھا تھا۔ تاریخ میں پہلی بار جس نے اس بند کو توڑا وہ توحید کا انقلاب تھا جو پیغمبر اسلام اور آپ کے ساتھیوں کے ذریعه رونما ہوا۔

یہ انقلاب اولاً عرب میں پیدا ہوا۔ اس کے بعد اس کے اثرات ساری دنیا میں پہنچے۔ انسانی تاریخ توہم پرستی کے دور سے نکل کر حقیقت پسندی کے دور میں داخل ہو گئی۔

قرآن میں جب اعلان کیا گیا کہ ایک اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں ، تو اسی وقت سائٹفک طرزِ فکر کا آغاز ہو گیا۔ لوگ غیر واقعی ذہنی بندششوں سے آزاد ہو کر چیزوں کے بارے میں سوچنے لگے۔ یہ طرزِ فکر بڑھتا رہا، یہاں تک کہ وہ موجودہ سائنسی انقلاب تک پہنچا۔

ایک اللہ کو الہٰ ماننا اور دوسری تمام چیزوں کو الہٰ کا درجہ دینے سے انکار کرنا ، یہ معنی رکھتا ہے کہ ایک اللہ کے سوا کسی اور چیز کو تقدس کا مقام حاصل نہیں۔ ایک اللہ کے سوا جتنی چیزیں ہیں ، وہ سب یکساں درجہ میں مخلوق اور بے اختیار ہیں۔ دوسری چیزوں کو مقدس درجہ دینا، انھیں تحقیق وتسخیر کا موضوع بنانے میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ اس کے برعکس، ان چیزوں کو غیر مقدس قرار دینا انھیں تحقیق وتسخیر کا موضوع بنانے کا باعث بن گیا۔ یہی اسلام کا وہ خاص کارنامہ ہے، جو اس کو دور جدید کا خالق ٹھہرا رہا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom