غیر خدا کو مقدس ماننا
ناتھن سوڈر بلوم (Nathan Soderblom) نے 1913 میں کہا تھا کہ مذہب کا بنیادی تصور (central notion) تقدس کا عقیدہ ہے۔ اس وقت سے اب تک تاریخ مذاہب کا مطالعہ وسیع پیمانہ پر کیا گیا ہے۔ جرمن ، فرانسیسی ، انگریزی زبانوں میں کثیر تعداد میں محققانہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ موجودہ علما مذاہب کا تقریباً اتفاق ہے کہ مذہب کا بنیادی تخیل تقدس (Holiness) کا عقیدہ ہے۔ یعنی چیزوں میں ایسی پر اسرار صفات یا پر اسرار طاقتیں ماننا جو عام انسانوں میں نہ پائی جاتی ہوں۔ یا عام عقلی اصولوں کے تحت جن کی توجیہ نہ کی جا سکتی ہو۔ انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس میں اس موضوع پر مفصل بحث زیر عنوان تقدس (Holiness) موجود ہے۔
تقدس کا یہ عقیدہ کوئی فرضی چیز نہیں ، وہ انسان کی فطرت میں آخری گہرائیوں تک پیوست ہے۔ اس کے استعمال کی صحیح صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے اس جذبے کو ایک خدا کے لیے خاص کر دے۔ مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کا یہ جذبہ غیر خدا کی طرف مڑ جاتا ہے۔ جس جذبۂ تقدس کا رخ حقیقۃً خالق کی طرف ہونا چاہیے تھا ، اس کا رخ مخلوق کی طرف ہو جاتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا ایک غیبی حقیقت ہے۔ آدمی اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں پاتا۔ اس لیے وہ ایسا کرتا ہے کہ آس پاس کی دنیا میں جو چیزیں نمایاں نظر آتی ہیں ، انھیں کو مقدس سمجھ کر پوجنے لگتا ہے۔ یہی نفسیات ہے جس نے قدیم زمانہ میں وہ چیز پیدا کی جس کو مذہب کی اصطلاح میں شرک اور علمی اصطلاح میں فطرت کی پرستش (nature worship) کہا جاتا ہے۔ انسان کا تقدس کا جذبہ اندر سے زور کر رہا تھا کہ کسی کو مقدس مان کر اس کی پرستش کرے۔ اس نے ہراس چیز کی پرستش شروع کر دی جو اس کو بظاہر نمایاں اور ممتاز دکھائی دی۔ مثلاً سورج ، چاند ، ستارے ، پہاڑ ، دریا، آگ ، بھونچال ، جانور ، وغیرہ وغیرہ۔ پیغمبروں کی تعلیمات کے تحت ایک خدائے برتر کا تصور موجود تھا۔ انسان نے فرض کر لیا کہ ایک خدا کہیں آسمان کی بلندیوں پر ہے اور یہ تمام چیزیں اس کے ماتحت دیوی دیوتا ہیں۔ (EB-12/877)
موجودہ زمانہ کے علما مذاہب کا عام طور پر اتفاق ہے کہ مذہب کی اصل تقدس کا عقیدہ ہے۔ یعنی بعض چیزوں میں ایسی مخصوص صفات یا پر اسرارطاقتیں ماننا جو دوسروں میں نہ پائی جاتی ہوں۔ اور عام عقلی اصولوں کے تحت جن کی توجیہ ممکن نہ ہو۔
اسی سے ان مقدس چیزوں کے حق میں خوف اور امید کا ذہن پیدا ہوتا ہے۔ ان کے مقابلہ میں آدمی اپنے آپ کو عاجز محسوس کرتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہاں میری حد ختم ہو گئی۔ یہ مقدس چیزیں مختلف قسم کی ہو سکتی ہیں۔ مثلاً پتھر ، جانور، سمندر ، سورج ، چاند اور اسی طرح بادشاہ اور مذہبی شخصیتیں وغیرہ۔ آدمی جن چیزوں کو اس طرح مقدس مان لے ، ان کی وہ پرستش کرتا ہے۔ ان کے نام پر قربانی کرتا ہے۔ ان کو خوش کرنے کے لیے رسمیں مناتا ہے تاکہ ان کے قہر سے بچے اور ان کی عنایتوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکے۔
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ تقدس کا عقیدہ مقدس شخصیتوں میں ظہور کرتا ہے ، جیسے مذہبی پیشوا ، بادشاہ ، مخصوص جگہیں مثلاً مندر اور بت اور فطری مظاہر ، مثلاً دریا ، سورج ، پہاڑ ، درخت۔ مذہبی پیشوا مذہبی پرستش کے عمل میںخاص ذریعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے رسمی اعمال خدائی عمل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اسی طرح بادشاہ آسمان وزمین کے درمیان خاص کڑی ہے۔ اسی بنا پر اس کو آسمانی فرزند یا خدائی ہتھیار جیسے لقب دئے جاتے ہیں۔
علم الا نسان کے جو محققین تقدس (Holiness) کو مذہب کی اصل بتاتے ہیں ، ان میں سے چند کے نام یہاں بطور مثال درج کیے جاتے ہیں :
Nathan Soderblom, Rudolf Otto, Emile Durkheim, Max Scheler, Gerardus van der Leeuw, W. Brede Kristensen, Friedrich Heiler, Gustav Mensching, Roger Caillois, Mircea Eliade (EB-16/124)
جدید علما ئےمذاہب کا یہ کہنا درست ہے کہ مذہب کا بنیادی تخیل تقدس (Holiness) کا عقیدہ ہے۔ تقدس کا یہ جذبہ بجائے خود فطری جذبہ ہے۔ مگر جب ایک اللہ کے سوا کسی اور کو مقدس مانا جائے تو یہ اصل فطری جذبہ کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ یہی ہر قسم کی برائیوں کی اصل جڑ ہے۔
انسان جب غیر مقدس کو مقدس مانتا ہے تو وہ ہر قسم کی ترقی کا دروازہ اپنے اوپر بند کر لیتا ہے۔
غیر مقدس کو مقدس ماننے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک ہے فطرت کو مقدس ماننا ، اور دوسرا ہے انسانوں میں سے کسی کو مقدس ماننا۔ یہ دونوں ہی برائیاں قدیم تاریخ میں ساری دنیامیں کسی نہ کسی شکل میں پائی جا رہی تھیں، اور یہی سب سے بڑا سبب ہے جس نے انسان کی سوچ کو غیر علمی سوچ بنا رکھا تھا۔
تقدس کا معاملہ انسان کی گہری نفسیات سے تعلق رکھتا ہے اور اس قسم کی نفسیات کو کسی ایک لفظ میں بیان کرنا انتہائی دشوار ہے۔ گہری انسانی کیفیات کے لیے جو الفاظ بولے جاتے ہیں۔ وہ ہمیشہ علامتی ہوتے ہیں نہ کہ حقیقی۔ اس واقعہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، اصولاً میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ تقدس کا عقیدہ مذہب کا خلاصہ ہے۔ البتہ یہ تقدس حقیقی ہے نہ کہ موجودہ علما مذاہب کے خیال کے مطابق ، محض فرضی۔
اصل یہ ہے کہ یہ ایک فطری جذبہ ہے جو ہر آدمی کے اندر پیدائشی طو رپر موجود ہوتا ہے۔ آدمی عین اپنے اندرونی جذبہ کے تحت چاہتاہے کہ کسی کو مقدس مان کر اس کے آگے جھک جائے۔ اس جذبہ کے اظہار کی دو صورتیں ہیں۔ ایک موحدانہ اظہار ، اور دوسرا مشرکانہ اظہار۔
آدمی اگر ایک خدا کو مقدس مانے اور اس کو اپنا معبود بنا کر اس کی پرستش کرے تو اس نے ایک صحیح جذبہ کو صحیح مقام پر استعمال کیا۔ یہ دراصل خدا ہی ہے جو فی الواقع تقدس کی صفت رکھتا ہے۔ اس لیے خدا کو مقدس ماننا ایک حقیقت واقعہ کا اعتراف کرنا ہے۔
مگر انسان ایسا کرتا ہے کہ دنیا میں جو چیز بھی اس کو بظاہر نمایاں دکھائی دے یا اپنے سے مختلف نظر آئے ، اس کو وہ مقدس فرض کر لیتا ہے۔ اور اس کی پرستش اور احترام میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ ایک صحیح جذبہ کا غلط استعمال ہے۔ یہ گویا جو کچھ خدا کو دینا چاہیے وہ غیر خدا کو دینا ہے۔ مذہب کی زبان میں اسی کا نام شرک ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم اس کو توہم پرستی (superstition) کہہ سکتے ہیں۔
خدا کے سوا دوسری چیزوں کو مقدس ماننے کی یہی غلطی تھی جو قدیم زمانہ میں سائنس کے ظہور کو ہزاروں برس تک روکے رہی۔ صرف ایک خدا کو مقدس مانا جائے تو اس سے کوئی علمی اور فکری مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ خدا ہمارے دائرہ اختیار سے باہر کی چیز ہے۔ وہ آسمانوں سے پرے ہے جہاں انسانوں کا گزر نہیں ہو سکتا۔
مگر دوسری چیزیں جن کو مقدس مان لیا جاتا ہے ، وہ ہمارے دائرہ اختیار کی چیزیں ہیں۔ یہ وہی چیزیں ہیں جن کی تسخیر سے حقیقۃً سائنس کا آغاز ہوتا ہے۔ مگر جب ان کو مقدس مان لیا جائے تو وہ قابل تسخیر چیز کے خانہ سے نکل کر قابل عبادت چیز کے خانہ میں چلی جاتی ہیں۔
خدا کے سوا اس دنیامیں جو چیزیں ہیں وہ سب کی سب مخلوقات ہیں۔ وہ وہی ہیں جن کو عام طور پر مظاہر فطرت کہا جاتا ہے۔ یہی مظاہر فطرت سائنسی عمل کی زمین ہیں۔ ان مظاہر فطرت کا مطالعہ کرنا اور ان پر کنٹرول حاصل کرنا ، اسی کا دوسرا نام سائنس ہے۔
اب چونکہ قدیم زمانے میں تمام قوموں نے مظاہر فطرت کو مقدس سمجھ لیا تھا ، اس لیے وہ ان کے لیے پرستش کا موضوع بن گیا وہ ان کے لیے تسخیر کا موضوع نہ بن سکا۔ یہی وہ فکری گمراہی ہے جو قدیم زمانے میں سائنسی تحقیق کے عمل کو ہزاروں سال تک روکے رہی۔ ترقی کا یہ دروازہ صرف اس وقت کھلا جب کہ توحید کے انقلاب نے انسانی ذہن کو بدلا اور مظاہر فطر ت کو تقدس کے مقام سے ہٹا دیا۔