ترقی کی طرف سفر

حضرت مسیح سے پہلے دنیا میں چار تمدنی مرکز تھے۔ ایران ، چین ، ہندستان ، یونان۔ عباسی خلیفہ المنصور نے 762ء میں بغداد شہر آباد کیا۔ اس نے مختلف علاقوں کے علما اور دانشوروں کو جمع کیا اور دوسری زبانوں سے ترجمہ کی حوصلہ افزائی کی۔ ریاست کی سر پرستی میں یہ کام شروع ہو گیا۔ 832ء میں خلیفہ المامون نے بغداد میں بیت الحکمت (House of Wisdom) کی بنیاد رکھی۔ اسی کے ساتھ اس نے ایک رصد گاہ (observatory)، ایک کتب خانہ اور ایک دار الترجمہ قائم کیا۔ یہاں دوسری زبانوں سے عربی ترجموں کا کام اتنے وسیع پیمانہ پر شروع ہوا کہ قیام بغداد کے اسی سال کے اند ریونانی کتابوں کا بیشتر ذخیرہ عربوں کی تحویل میں آگیا۔

عباسی دور میں کاغذ سازی ایک گھریلو صنعت بن چکی تھی۔ چنانچہ کثرت سے کتابیں لکھی جانے لگیں۔ دسویں صدی میں قرطبہ (اسپین )کے کتب خانہ میں چار لاکھ سے زیادہ کتابیں موجود تھیں۔ اس زمانہ میں یورپ کا یہ حال تھا کہ کیتھو لک انسائیکلو پیڈیا کے مطابق کینٹر بری کا کتب خانہ تیرہویں صدی میں اپنی 1800 کتابوں کے ساتھ مسیحی کتب خانوں کی فہرست میں پہلے نمبر کی حیثیت رکھا تھا۔

جغرافیہ میں نویں صدی عیسوی کے نصف اول میں خوار زمی اور اس کے ساتھیوں نے معلوم کیا تھاکہ زمین کا محیط بیس ہزار اور اس کا نصف قطر 6500 میل ہے۔ یہ صحت نہایت حیرت انگیز ہے۔ دنیائے اسلام میں یہ سر گرمیاں ایسے زمانے میں جا رہی تھیں، جب کہ سارے کا سار ایورپ زمین کے چپٹی ہونے کا قائل تھا۔ بارھویں صدی کے وسط میں الا دریسی نے دنیا کا ایک نقشہ بنایا۔ اس نقشہ میں اس نے دریائے نیل کا منبع بھی دکھایا جسے اہل یورپ کہیں انیسویں صدی میں جا کر دریافت کرنے کے قابل بنے۔ مسلمانوں نے اہل یورپ کو زمین گول ہونے کا عقیدہ اور مدو جزر کے اسباب کا تقریباً صحیح نظریہ منتقل کیا۔

بطلیموس (Ptolemy) دوسری صدی عیسوی کا مشہور یونانی عالم فلکیات ہے۔ اس نے نظام شمسی کا زمین مرکزی (earth-centred)  نظریہ پیش کیا تھا۔ اس موضوع پر اس کی کتاب المجست (Almajest) بہت مشہور ہے۔ بطلیموس کا نظریہ تقریباً ڈیڑھ ہزار سال تک عالمی ذہن پر چھایا رہا۔ یہاں تک کہ سولھویں صدی عیسوی میں کوپرنیکس اور گلیلیو اور کپلر کی تحقیقات نے آخری طور پر اس کو غلط ثابت کر دیا۔ اب ساری دنیا میں کوئی اس کا ماننے والا نہیں۔

گردش زمین کے بارے میں ایک غلط نظریہ کے اتنی لمبی مدت تک غالب رہنے کی وجہ دراصل غیر مقدس کو مقدس بنانے کی غلطی تھی۔ مسیحی حضرات کا یہ عقیدہ تھا کہ زمین ایک مقدس کرہ ہے کیوں کہ وہ خدا کے بیٹے (مسیح ) کی جنم بھومی ہے۔ اس بنا پر یہ بات انھیں اپنے مفروضہ عقیدہ کے عین مطابق نظر آئی کہ زمین مرکز ہو اور ساری کائنات اس کے گرد گھوم رہی ہو۔ زمین کے تقدس کا یہ نظریہ مسیحی حضرات کے لیے اس میں مانع ہو گیا کہ وہ اس کی مزید چھان بین کریں۔ وہ اس وقت تک اس پر قائم رہے جب تک حقائق کے طوفان نے انھیں ماننے کے لیے مجبور نہ کر دیا۔

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) نے لکھا ہے کہ قدیم نظریہ کائنات کے مطابق ، زمین کائنات کا مرکز تھی ، انسان زمین کی سب سے اعلیٰ مخلوق تھا۔ اور انسان کی نجات (بذریعہ کفارہ ) پورے زمین وآسمان کا سب سے زیادہ مرکزی واقعہ تھا۔ یہ دریافت کہ زمین بہت سے سیاروں میں سے ایک سیارہ ہے جو کہ سورج کے گرد گھوم رہے ہیں ، اور یہ کہ سورج کائنات کی ان گنت کہکشاوں میں صرف ایک ناقابل لحاظ ستارہ ہے ، اس نے انسان کے بارے میں قدیم (مسیحی ) تصور کو ہلا دیا۔ زمین وسیع تر کائنات کے مقابلہ میں صرف ایک چھوٹا سا گرد کا دھبہ نظر آنے لگی۔ نیوٹن اور دوسرے لوگوں نے اس سوال کی تحقیق شروع کی کہ انسان جو ذرہ کا ذرہ ہے ، کیوں کر یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس کو یہ مقدس حیثیت حاصل ہے کہ وہ اس کی منزل خداوندی نقشہ میں معراج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ (EB-4/522)

مسیحی حضرات نے حضرت مسیح کو مقدس خدائی تثلیث کا ایک حصہ مان لیا اور یہ مفروضہ عقیدہ بنایا کہ خدا کے بیٹے کا انسانی کفارہ کے لیے صلیب پر چڑھنا تاریخ کا سب سے اہم واقعہ ہے جو زمین پر پیش آیا۔ اس طرح زمین ان کے اعتقادی خانہ میں ایک مقدس حیثیت حاصل کر گئی۔ وہ ہر ایسی سوچ کے شدید ترین مخالف ہو گئے جس میں زمین کی مرکزی حیثیت ختم ہوتی ہو۔

مسیحی حضرات کا یہ عقیدہ ان کے لیے نظام شمسی کی آزادانہ تحقیق میں حائل ہو گیا۔

اسی طرح غیر مقدس کو مقدس بنانا قدیم زمانہ میں تمام ترقیوں کا دروازہ روکے ہوئے تھے۔ چاند کو مقدس بنانا اس میں مانع تھا کہ انسان اس کے اوپر اپنا پاؤں رکھنے کی بات سوچ سکے۔ دریا کو مقدس سمجھنا اس میں مانع ہو گیا کہ انسان دریا کو مسخر کر کے اس سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ بنائے۔ گائے کو مقدس سمجھنا اس میں مانع بن گیا کہ انسان اس کے گوشت کی پروٹینی اہمیت کو سمجھے اور اس کو اپنی خوراک بنائے۔ اس قسم کی تمام تحقیقی وتسخیر کا کام صرف اس وقت شروع ہو سکا جب کہ اشیاء فطرت کو تقدس کے مقام سے ہٹایا گیا اور اس کو اس سطح پر لایا گیا جہاں انسان ان کو ایک عام چیز کی حیثیت سے دیکھ سکے۔

اسلام سے پہلے ستاروں کو صرف پرستش کا موضوع سمجھا جاتا تھا، اسلامی انقلاب کے بعد پہلی بار بڑے پیمانہ پر انسان نے رصد گاہ ہیں قائم کیں اور ان کو مطالعہ کا موضوع بنایا۔ زمینی معدنیات کو اب تک تقدس کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اہل اسلام نے پہلی بار کیمسٹری کا فن دریافت کر کے مادہ کو تحقیق وتجزیہ کا موضوع بنایا۔ زمین کو اب تک خدائی چیز سمجھا جاتا تھا (مثلاً یہ کہ آسمان مذکر دیوتا ہے اور زمین مونث دیوتا)۔ مسلمانوں نے پہلی بار اس کی پیمائش کر کے اس کا طول وعرض معلوم کیا۔ سمندر کو انسان اب تک صرف پوجنے کی چیز سمجھتا تھا ، مسلمانوں نے پہلی بار اس کو وسیع پیمانہ پر آبی گزر گاہ کے طور پر استعمال کیا۔ طوفان اور ہوا کو انسان پر اسرار چیز سمجھ کر پوجتا تھا ، مسلمانوں نے اس کو ہوا چکی  (windmill)  میں تبدیل کر دیا۔

درختوں سے پر اسرار کہانیاں وابستہ کر کے ان کو قابل تعظیم سمجھا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے ان پر تحقیق شروع کی، حتی کہ انھوں نے نباتات کی علمی فہرست میں مجموعی طور پر دو ہزار پودوں کا اضافہ کیا۔ جن دریاؤں کو لوگ مقدس سمجھتے تھے اور ان کو خوش کرنے کے لیے اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو زندہ حالت میں اس کے اندر ڈال دیتے تھے ، ان دریاؤں سے نہریں کاٹ کر آبپاشی کے لیے استعمال کیا اور زراعت کو بالکل نئے دور میں داخل کر دیا۔

اس زمانہ میں مسلمان دوسری قوموں سے اتنا زیادہ آگے تھے کہ مسلمان جب اسپین سے ملک بدر کیے گئے تو انھوں نے وہاں رصد گاہیں چھوڑیں جن کے ذریعہ وہ آسمانی اجرام کا مطالعہ کرتے تھے۔ ان چھوڑی ہوئی رصد گاہوں کا استعمال اسپین کے عیسائی نہیں جانتے تھے چنانچہ انھوں نے ان کو کلیسا کے گھنٹہ گھرمیں تبدیل کر دیا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ قدیم زمانہ میں ساری دنیامیں شرک اور توہم پرستی کا غلبہ تھا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہی شرک اور توہم پرستی ہر قسم کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ اسلام کے ذریعہ توحید کا جو انقلاب آیا اس نے تاریخ میں پہلی بار شرک اور توہم پرستی کے غلبہ کو عملاً ختم کیا۔ اس کے بعد عین اس کے فطری نتیجہ کے طور پر انسانی تاریخ ترقی کے راستہ پر چل پڑی۔

قدیم زمانہ میں بعض ملکوں میں کچھ تخلیقی ذہن (creative mind)پیدا ہوئے۔ انھوں نے ماحول سے الگ ہو کر سوچا۔ مگر ماحول کی عدم مساعدت بلکہ مخالفت کی وجہ سے ان کی کوشش آگے نہ بڑھ سکی۔ ان کے علم کی کلی پھول بننے سے پہلے اپنی شاخ پر مرجھا کر رہ گئی۔ اسلامی انقلاب نے جب اس کے موافق ماحول پیدا کیا تو علم کا وہ سیلاب پوری تیزی سے بہہ پڑا جو ہزاروں سال سے توہمات کے بند کے پیچھے رکا ہوا تھا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom