علم اعداد

          اعداد (ہندسہ ) کا موجودہ طریقہ ابتدا میں ہندستان میں بعض افراد نے ایجاد کیا۔ تاہم یہ زمانہ وہ تھا جب کہ ہر مروجہ چیز کو مقدس سمجھ لیا جاتا تھا ، اور ہر نئی چیز کو شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ چنانچہ ہندسہ کا یہ طریقہ اس وقت ہندستان میں رواج نہ پا سکا۔ وہ صرف بعض انفرادی کتابوں میں بند ہو کر رہ گیا۔ لوگ قدیم طریقے کو مقدس سمجھ کر اس کو پکڑے رہے ، وہ نئے طریقے کو اختیا ر نہ کر سکے۔

          اس کے بعد ہندسہ کے ان واضعین کو معلوم ہوا کہ بغداد میں ایک سلطنت قائم ہوئی ہے، جو نئی چیزوں کی قدر دانی کرتی ہے۔ چنانچہ ایک ہندستانی 154ھ (771ء ) میں سفر کر کے بغداد گیا۔ اس وقت بغداد میں عباسی خلیفہ المنصور کی حکومت تھی۔ ہندستانی پنڈت نے المنصور کی خدمت میں دو سنسکرت رسالے پیش کیے۔ ان میں سے ایک سِدّھاتناکے بارے میں تھا۔ اس کو عربوں نے سِندهند کا نام دیا۔ اس کا دوسرا رسالہ ریاضی کے بارے میں تھا۔

          المنصور کے حکم سے محمد بن ابراہیم انفرادی نے 796-806ء کے درمیان ان کا عربی ترجمہ کیا۔ الخوارزمی (780-850ء ) نے اس عربی ترجمہ کو پڑھا اور اس کے ذریعہ ہندی ہندسہ سے واقفیت حاصل کی جس میں بنیادی گنتی نو (1۔9) تک تھی۔ اور اس کے بعد صفر کے اضافہ سے تمام گنتیاں بنانے کا طریقہ بتایا گیا تھا۔ الخوارزمی نے اس کو ہندی ہندسہ کہا، اور اس کو اختیار کرنے کی اپیل کی ۔(ہٹی ، صفحہ  307-308)

          الخوارزمی کی کتاب کا لاتینی ترجمہ بارھویں صدی میں اڈیلارڈ (Adelard) نے کیا۔ اس طرح گنتی کا یہ فن یورپ پہنچا۔ عربوں نے اگرچہ اس کو ہندی ہندسہ کہا تھا۔ مگر یورپ میں اس کو عربی گنتی (Arabic numerals) کا نام دیا گیا۔ عجیب بات ہے کہ الخوارزمی کی عربی کتاب کا نسخہ ضائع ہو گیا ، البتہ اس کا لاتینی ترجمہ اب بھی یورپ کی لائبریریوں میں موجود ہے۔ (ہٹی صفحہ  573-74)

یورپ میں قدیم زمانے میں رومی ہندسہ رائج تھا۔ وہ یورپ میں دو ہزار سال تک رائج رہا۔ یہ علامتی حروف کی شکل میں لکھا جاتا تھا۔ مثلا ً 88 کا عدد لکھنے کی صورت یہ تھی  (LXXXVIII)  اس کے نتیجہ میں حساب کتاب بے حد دشوار تھا۔ مگر اہل یورپ رومی ہندسہ کو مقدس مانتے تھے۔ وہ اس کو دیوتاؤں کا عطیہ سمجھتے تھے۔ اس لیے وہ سوچ نہیں پاتے تھے کہ اس کو بدلیں یا اس میں کوئی ترمیم کریں۔ غیر مقدس اعداد کو مقدس ماننے کا نتیجہ یہ ہوا کہ علم کے میدان میں وہ سیکڑوں سال تک کوئی ترقی نہ کر سکے۔ یہ اسلامی انقلاب تھا، جس نے پہلی بار اعداد کے تقدس کے طلسم کو توڑا ،اور پھر یورپ میں علمی ترقی کا دور شروع ہوا۔

          لیو نارڈو (Leonardo Fibonacci) غالباً پیسا (اٹلی )میں پیدا ہوا۔ اس کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بہت کم معلوم ہے۔ تاہم بعد کی تاریخ میں اس نے غیر معمولی شہرت حاصل کی۔ کیونکہ یہی وہ شخص ہے، جس نے عرب اعداد کو یورپ میں روشناس کرایا۔ اس کا زمانہ بارھویں اور تیرھویں صدی کے درمیان ہے۔

          لیونارڈ کا باپ الجیریا میں تجارت کرتا تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کو ایک عر ب استاد کے حوالے کر دیا، تاکہ وہ اس کو حساب کی تعلیم دے۔ عرب استاد نے لیو نارڈ کو ’’ہندسہ ‘‘ کا علم سکھایا۔ اس کے بعد لیونارڈ نے مصر ، شام ، سسلی وغیرہ کا سفر کیا۔ اس نے الخوارزمی کی تحریریں پڑھیں۔ عرب اعداد سے پوری واقفیت حاصل کرنے کے بعد اس نے کتابیں لکھ کر ان کو اس سے متعارف کرایا۔ اس نے بتایا کہ اس اصول کے مطابق نو بنیادی گنتیاں ہیں 1، 2، 3، 4، 5، 6، 7، 8، 9۔ ان گنتیوں پر صفر  کا اضافہ کر کے کوئی بھی عدد بنایا جا سکتا ہے۔

یہ طریقہ بہت جلد یورپ میں تجارتی حسابات کے لیے استعمال ہونے لگا۔ 1220ء میں لیونارڈ کی شہرت اتنی بڑھی کہ اٹلی کے بادشاہ فریڈرک (Frederick) نے اس کو اپنے دربارمیں بلایا۔ وہاں اس نے بادشاہ کے سامنے اپنے علم کا مظاہرہ کرتے ہوئے عربی ٹائپ (Arabic Type)  پیش کیے۔ عرب اعداد کے طریقہ کو جن لوگوں نے یورپ میں شائع کیا۔ ان میں لیو نارڈ کا نام سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ (EB-10/817-18) 

ولفرڈ بلنٹ (Wilfrid Blunt) نے لکھا ہے — فرض کرو کہ اگر اسلام کا طوفان نہ آیا ہوتا تو کیا ہوتا۔ کوئی بھی چیز نہیں ہے جس نے مغرب میں سائنس کی ترقی کو اتنا روکا ہو جتنا کہ بے ڈھنگے رومی ہندسہ نے۔ عربی ہندسہ جو کہ آٹھویں صدی عیسوی کے آخر میں ہندستان سے بغداد پہنچا تھا ، اگر وہ جلد ہی بعد مغربی یورپ پہنچ جاتا، اور یہاں اس کو اختیار کر لیا جاتا تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ بہت سی سائنسی ترقی جس کو اٹلی کی نشاۃ ثانیہ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ وہ چند سو سال پہلے حاصل ہو جاتی :

And supposing the tide of Islam had not been stemmed. Nothing so delayed the advance of science in the West as the clumsiness of the Roman numerals. Had the Arabic numerals, which had reached Baghdad from India towards the end of the eighth century, been soon afterwards introduced into and adopted by western Europe as a whole, much of that scientific progress which we associate with the Renaissance in Italy might have been achieved several centuries earlier. Wilfrid Blunt, The Times  (London, April 2,1976)

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom