تاریکی سے روشنی تک

اللہ تعالیٰ نے ایک مکمل دنیا بنائی، اور پھر انسان کو کامل صورت میں پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان سے کہا کہ تم اس دنیامیں رہو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ اسی کے ساتھ انسان کو یہ بھی بتا دیا کہ تمہارا خالق اور معبود صرف ایک ہے۔ اسی ایک خدا کی پرستش کرو۔ اس کے سوا کسی اور کو اپنا معبود نہ بناؤ۔

مگر انسان محسوس پرستی میں پڑ گیا۔ وہ غیر مرئی خدا کو اپنا مرکزِ توجہ نہ بنا سکا۔ وہ دن بدن مرئی خداؤں کی طرف مائل ہوتا چلا گیا۔ جو چیز بھی اس کو بظاہر بڑی اور نمایاں نظر آئی ، اس کے متعلق اس نے سمجھ لیا کہ وہ خدا ہے یا وہ اپنے اندر خدائی صفت رکھتی ہے۔ اس طرح ایک طرف بڑے انسانوں کے تقدس کا عقیدہ پیدا ہوا ،اور دوسری طرف فطرت کی پرستش کا سلسلہ شروع ہوا، جس کو مظاہر کی پرستش(worship of natural phenomena)یا فطرت کی پرستش (nature worship) کہا جاتا ہے۔

اسی عبادتِ غیر اللہ کا نام شرک ہے۔ یہ شرک دھیرے دھیرے عقیدہ اور عمل کے تمام پہلوؤں پر چھا گیا۔ برکت اور نحوست کے مفروضہ عقائد کے تحت وہ تمام گھریلو رسموں میں شامل ہو گیا، اور خدائی بادشاہ(divine king) کے نظریہ کی صورت میں وہ سیاسی نظام کا لازمی جزء بن گیا۔

یہی قدیم دنیا کا مذہب تھا۔ قدیم دنیا مکمل طور پر ان مفروضہ عقائد پر قائم ہو گئی تھی، جس کو مذہب کی زبان میں شرک اور علمی زبان میں توہم پرستی (superstition) کہا جاتا ہے۔

پچھلے زمانوں میں جو پیغمبر آئے وہ سب اسی بگاڑ کی اصلاح کے لیے آئے۔ انھوں نے ہر دور میں انسان کو یہ دعوت دی کہ شرک کو چھوڑو، اور توحید کو اختیار کرو۔ ایک روایت کے مطابق حضرت آدم سے لے کر حضرت مسیح تک ایک لاکھ سے زیادہ پیغمبر آئے(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 361)۔ مگر انسان ان کی بات ماننے کے لیے راضی نہ ہوا۔ پیغمبروں کی دعوت اعلانِ حق تک رہی ، وہ انقلابِ حق تک نہ پہنچ سکی۔

شرک یا توہم پرستی کو ختم کرنے کا معاملہ سادہ معنوں میں صرف ایک مذہبی معاملہ نہ تھا۔ اس کا تعلق انسان کے تمام معاملات سے تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ تو ہم پرستی کا یہ غلبہ ہر قسم کی انسانی ترقیوں کو روکے ہوئے تھا۔

اس نے فطرت (nature) کو تقدس کا درجہ دے کر اس کی تحقیق وتسخیر کا ذہن ختم کر دیا تھا۔ جب کہ فطرت کی تحقیق وتسخیر کے بعد ہی وہ تمام واقعات ظہور میں آنے والے تھے، جن کو سائنسی یا صنعتی ترقی کہا جاتا ہے۔ اس نے مختلف قسم کے بے بنیاد مفروضات کے تحت انسانوں کے درمیان اونچ نیچ کے عقائد قائم کر لیے تھے۔ ان کے باقی رہتے ہوئے یہ ناممکن ہو گیا تھا کہ انسانی مساوات کا دور شروع ہو سکے۔ اسی طرح وہ تمام چیزیں جن کو موجودہ زمانے میں روشنی اور ترقی کہا جاتا ہے ، ان سب کا ظہور نا ممکن بن گیا تھا۔ کیوں کہ ان کے ظہور کے لیے دنیا کے بارے میں سائنٹفک نقطۂ نظر درکار تھا، اور توہم پرستانہ نقطۂ نظر نے سائنٹفک نقطۂ نظر کی پیدائش کو نا ممکن بنا دیا تھا۔

ہزاروں برس کی پیغمبرانہ کوشش ثابت کر چکی تھی کہ مجرد فکری اور دعوتی جدوجہد انسان کو توہمات کے اس دور سے نکالنے کے لیے ناکافی ہے۔ اس زمانے کی حکومتیں بھی انھیں توہماتی عقائد کی بنیاد پر قائم ہو تی تھیں۔ اس لیے حکمرانوں کا مفاد اس میں تھا کہ توہماتی دور دنیا میں باقی رہے۔ تاکہ عوام کے اوپر ان کی بادشاہی کا حق مشتبہ نہ ہونے پائے۔ اس لیے وہ اپنی فوجی اور سیاسی طاقت کو ہر اس دعوت کے خلاف بھر پور طور پر استعمال کرتے تھے، جو شرک اور توہم پرستی کو ختم کرنے کے لیے اٹھی ہو۔

اب سوال یہ تھا کہ کیا کیا جائے۔ یہی وہ وقت ہے جب کہ چھٹی صدی عیسوی میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فیصلے کے تحت آپ کو ’’ داعی ‘‘ بنانے کے ساتھ ’’ماحی ‘‘ بھی بنایا۔ یعنی آپ کے ذمہ یہ مشن سپرد ہوا کہ آپ نہ صرف اس توہماتی نظام کے باطل ہونے کا اعلان کریں، بلکہ اس  سیاسی غلبہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی خاطر فوجی کارروائی (military  operation) بھی فرمائیں ، جس کی سرپرستی میں یہ توہماتی نظام جاری تھا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom