مساوات انسانی

تمام فلسفیوں اور مفکروں کا پسندیدہ ترین خواب انسانی برابری اور مساوات ہے۔ مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ کے پہلے انسان ہیں جن کے لائے ہوئے اسلامی انقلاب نے ساری تاریخ میں پہلی بار انسانی مساوات کو عملی طور پر قائم کیا۔ اس کا اعتراف عام طور پر سنجیدہ اہل علم نے کیا ہے۔ مثال کے طور پر سوامی ویویکانند نے اپنے مطبوعہ خط (نمبر 175) میں کہا تھا کہ میرا تجربہ ہے کہ اگر کبھی کوئی مذہب عملی مساوات تک قابل لحاظ درجے میں پہنچا ہے تو وہ اسلام اور صرف اسلام ہے :

My experience is that if ever any religion approached to this equality in an appreciable manner, it is Islam and Islam alone.

اس تاریخی استثناء کا سبب بھی وہی شرک تھا ،جو دوسری ترقیوں میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ شرک کے غلبے نے انسانوں کے اندر نا برابری قائم کر رکھی تھی ، توحید کے غلبے نے لوگوں کے اندر انسانی برابری کا نظام قائم کر دیا۔

اصل یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان فطری اور طبیعی طور پر بہت سے فرق پائے جاتے ہیں۔مثلاً کوئی کالا ہے، اور کوئی گورا۔ کوئی امیر ہے، اور کوئی غریب۔ کوئی حاکم ہے، اور کوئی محکوم۔ یہ فرق قرآن ( 49:13)کے الفاظ میں ، تعارف کے لیے ہے، نہ کہ امتیاز کے لیے۔ یہ فرق درجہ بندی کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس لیے ہے کہ دنیا کا انتظام خوش اسلوبی کے ساتھ قائم ہو۔ یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان میں سے کوئی اونچے درجے کا ہے، اور کوئی نیچے درجےکا۔ وہ صرف اس لیے ہے کہ اگر اس قسم کا فرق نہ ہو تو دنیا کا متنوع کاروبار خوش اسلوبی کے ساتھ چل نہیں سکتا۔

قدیم زمانے میں شرک کے زیر اثر جو تو ہم پرستی پیدا ہوئی ، اس نے جس طرح طبیعی مظاہر کے بارے میں غیر واقعی نظریات قائم کر لیے ، اسی طرح انسانوں کے بارے میں بھی ساری دنیا میں غیرواقعی نظریات قائم ہوئے ، اور صدیوں کے درمیان پختہ ہو کر وہ قوموں کی روایا ت میں شامل ہو گئے۔ مثلاً اسی کے اثر سے کہیں ذات پات کا عقیدہ بنا۔ کہا گیا کہ کچھ لوگ خد اکے سرسے پیدا ہوئے ہیں، اور کچھ لوگ خدا کے پاؤں سے۔ اس طرح اونچی ذات اور نیچی ذات کی تقسیم رائج ہوئی۔ اسی طرح بادشاہوں کے بارے میں یہ عقیدہ بنا کر وہ دیوتاؤں کی نسل سے ہیں۔ اور عوام اس لیے ہیں کہ ان کی خدمت کریں۔ کہیں یہ نظر یہ وضع ہوا کہ کچھ لوگ پیدائشی طور پر برتر نسل ہیں اور دوسرے لوگ پیدائشی طور پر کم نسل۔

یہ تفریق اور عدم مساوات دوبارہ شرک کی زیرسر پرستی رائج ہوئی اور صدیوں کے عمل سے تاریخ میں اس کا تسلسل قائم ہو گیا۔ حتی کہ یہ ذہن بن گیا کہ جس طرح رات کا تاریک ہونا اور دن کا روشن ہونا مقدرات میں سے ہیں اسی طرح انسانیت کی تفریقات بھی مقدرات میں سے ہیں ، وہ ابدی طور پر اٹل ہیں ، ان کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔

اس دور کو لانے کے لیے شرک اور توہم پرستی کے غلبے کو ختم کرنا تھا۔ مگر ہزاروں پیغمبروں کے آنے کے باوجود وہ ختم نہ ہو سکا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’ خاتم الرسل ‘‘ ہونے کا تقاضا تھا کہ اس کو بھی عملاً ختم کر دیا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی خصوصی نصرت فرمائی اور آپ نے اپنے اصحاب کو ساتھ لے کر وہ فکری اور عالمی انقلاب برپا کیا، جس کے بعد اس نظریے کی جڑ اکھڑ گئی۔ عدم مساوات کا نظریہ ہمیشہ کے لیے بے زمین ہو کر رہ گیا۔

عرب میں شرک کے نظام کو ختم کرنے کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الودا ع کے موقع پر جو تقریر فرمائی اس کے کچھ الفاظ یہ تھے ::يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى عَجَمِيٍّ، وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ، وَلَا أَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ، إِلَّا بِالتَّقْوَى (مسند احمد، حدیث نمبر 2044) و فی روایۃ:أَبُوكُمْ آدَمُ، وَآدَمُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ( کشف الاستارللہیثمی، حدیث نمبر 2044)۔یعنی کسی عربی کو کسی عجمی پر فضیلت نہیں اور کسی عجمی کو کسی عربی پر فضیلت نہیں۔ کسی کالے کو کسی سرخ پر فضیلت نہیں او رکسی سرخ کو کسی کالے پر فضیلت نہیں سوائے تقویٰ کے۔ ایک روایت یہ میں ہے:تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدمی مٹی سے تھے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اعلان محض ایک وقتی وعظ نہ تھا۔ وہ قیامت تک باقی رہنے والے دین کی طرف سے گویا ایک ابدی اعلان تھا۔ وہ صرف ’’ کیا ہونا چاہیے ‘‘ کی لفظی تلقین نہ تھی ، بلکہ ’’ کیا ہو چکا ہے ‘‘ کی واقعاتی اطلاع تھی۔ چنانچہ ایک طرف یہ اعلان ہوا ، اوردوسری طرف اس پر باقاعدہ عمل شروع ہو گیا۔ انسانیت کے درمیان تفریق کی تمام مصنوعی دیواریں ڈھ پڑیں، اور انسانیت ایک نئی دنیا میں پہنچ گئی، جہاں کوئی اونچ نیچ نہ تھی۔ جہاں اخلاقی صفات کی بنیاد پر آدمی کو سماج میں درجہ ملتا تھا، نہ کہ محض نسلی تعلق یا پیدائشی اتفاق کی بنا پر۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom