اظہار خیال کی آزادی
اسلام نے توحید کی بنیاد پر جو انقلاب برپا کیا اس کے بعد تاریخ میں پہلی بار ایک نیا انسانی سماج وجود میں آیا ، ایک ایسا سماج جس میں کسی روک ٹوک کے بغیر ہر شخص کو اظہار خیال کی آزادی تھی۔ ایران کا نوشیرواں (خسر و اول ) 531سے 579 تک ساسانی سلطنت کا حکمراں رہا ہے۔ وہ ایران کے عادل بادشاہوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ مگر اس کے زمانے میں بھی یہ حال تھا کہ ایک بار اس کے دربار میں ایک شخص نے بادشاہ پر تنقید کرنے کی جرات کی تو اس کو بادشاہ کی طرف سے یہ سزا دی گئی کہ عین دربار میں اس کے سر پر لکڑی مار مار کر اس کو ہلاک کر دیا گیا۔ قدیم زمانے میں یہی تمام دنیا کا حال تھا۔ حکمراں کے خلاف کسی بھی قسم کا فکری اختلاف بغاوت کے ہم معنی سمجھا جاتا تھا۔ جس کی سب سے ہلکی سزا یہ تھی کہ اس کو مار کر اسی وقت ختم کر دیا جائے۔
اسلام نے نہ صرف اس کے خلاف اعلان کیا بلکہ سماج میں وہ حالات پیدا کیے کہ لوگوں کے اندر یہ جرأت پیدا ہوئی کہ وہ اس قدیم روایت کو توڑیں، اور اپنے سرداروں اور حکمرانوں کے خلاف کھلم کھلا اظہار رائے کر سکیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں سیاسی حکمراں کی حیثیت حاصل تھی۔ اس کے باوجود آپ عام انسانوں کی طرح رہتے تھے۔ ہر شخص آپ کے مقابلے میں آزادانہ اظہار خیال کر سکتا تھا۔ اس کی ایک مثال غزوہ بدر کا واقعہ ہے۔ اس غزوہ کے سفر میں آپ نے ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ ایک شخص جس کا نام حباب بن المنذر تھا۔ وہ سامنے آیا اور براہ راست پیغمبر اسلام سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ مقام جہاں آپ ٹھہرے ہیں، وہ خدا کی وحی سے ہے یا آپ اپنی ذاتی رائے کے تحت یہاں ٹھہرے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں اپنی ذاتی رائے سے یہاں ٹھہرا ہوں۔ یہ سن کرحباب بن المنذر نے کہا کہ یہ تو کوئی ٹھہرنے کی جگہ نہیں (إِنَّ هَذَا لَيْسَ بِمَنْزِل) ، لوگوں کو ساتھ لے کر دوسری جگہ پڑاؤ کیجیے(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ620)۔
اس واقعے کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں موجود ہے۔ یہاں ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایک عام آدمی وقت کے حکمراں کے خلاف بے تکلف ’’ تنقید ‘‘ کرتا ہے، مگر کوئی اس کو برا نہیں مانتا۔ خود پیغمبر اسلام نے اس جسارت کے خلاف کوئی منفی رد عمل ظاہر نہیں کیا ،بلکہ سادہ طور پر صرف یہ پوچھا کہ تمہاری یہ رائے کیوں ہے ، اور جب اس نے اپنی رائے کی اہمیت بتائی تو آپ نے فوراً اس کو قبول کر لیا، اور وہاں سے اٹھ کر اگلی منزل کے لیے روانہ ہو گئے۔
اسلامی توحید کے تحت آنے والا یہ انقلاب اتنا طاقت ور تھا کہ وہ پوری اسلامی تاریخ میں مسلسل طور پر جاری ہو گیا۔ پیغمبر اسلام کے بعد خلفاء راشدین کے زمانے میں کوئی بھی شخص خواہ بظاہر وہ کتنا ہی غیر اہم ہو، خلیفہ کے اوپر آزادانہ تنقید کر سکتا تھا۔ اس کی مثالیں کثرت سے خلفاء راشدین کے تذکروں میں موجود ہیں۔ اسلام کا یہ انقلاب اتنا طاقتور تھا کہ وہ بعد کے زمانے میں اس وقت بھی باقی رہا جب کہ خلافت کی جگہ ’’ ملوکیت ‘‘ قائم ہو گئی۔ اسلام کی بعد کی 14 سو سالہ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شخص عوام کی زبان بندی کرنے میں کامیاب ہو سکے۔