ذہنی روک
سائنس کے لیے ضروری ہے کہ چیزوں کی ماہیت جاننے کے لیے گہرائی کے ساتھ ان کا مشاہدہ اور تجربہ کیا جائے۔ مگر یونانیوں میں اور دوسری قدیم قوموں میں اس کا ماحول موجود نہ تھا۔ کیوں کہ خدا کے سوا دوسری چیزوں میں بھی تقدس کو ماننے کی بنا پر ایسا ہوا کہ تمام چیزیں لوگوں کی نظر میں مقدس اور پر اسرار ہو گئی تھیں۔ اس کے نتیجے میں ہر قوم کے اندر جادو اور توہم پرستی اور غیر اللہ کی تقدیس کا عام رواج ہو گیا تھا۔ یہ ذہن اشیاء کی سائنسی تحقیق میں مانع بن گیا۔ اگر لوگوں کے ذہن میں یہ عقیدہ بیٹھا ہوا ہو کہ واقعات جادو کے زور پر ہوتے ہیں یا چیزوں میں پر اسرار قسم کے دیوتائی اوصاف چھپے ہوئے ہیں ،تو ایسی حالت میں ان کے اندر تحقیق کا ذہن نہیں ابھر سکتا۔ ایسی حالت میں وہی چیز ابھرے گی، جس کو برٹرینڈر سل نے جادو اور توہم پرستی سے تعبیر کیا ہے۔
قدیم زمانے کے عرب خود بھی اسی قسم کے توہمات میں مبتلا تھے۔ یہ توہمات دوسری قوموں کی طرح خود ان کے لیے بھی ایک ذہنی روک (mental block) بنا ہوا تھا۔ اسلام کے ذریعہ جب ان کے اندر فکری انقلاب آیا تو ان کے درمیان سے اس ذہنی روک کا خاتمہ ہو گیا۔ اب وہ چیز کو صرف چیز کے روپ میں دیکھنے لگے جب کہ اس سے پہلے ہر چیز انھیں مقدس اور پر اسرار دکھائی دے رہی تھی۔ یہی وہ فکری انقلاب ہے جس نے عربوں میں پہلی بار سائنسی ذہن پیدا کیا اور اس میں ترقی کر کے وہ ساری دنیا کے لیے اس چیز کو دینے والے بنے جس کو موجودہ زمانہ میں سائنس کہاجاتا ہے۔