نظام شمسی

علم کی ترقی کے لیے آزاد انہ تحقیق کا ماحول انتہائی طور پر ضروری ہے۔ قدیم زمانے میں مختلف قسم کے خود ساختہ عقائد کی وجہ سے آزادانہ تحقیق کا ماحول باقی نہیں رہا تھا۔ قدیم زمانے میں بار بار ایسا ہوا کہ ایک ذہین اور صاحب علم آدمی غوروفکر کرتے ہوئے کسی حقیقت تک پہنچا۔ مگر جب اس نے اپنا خیال لوگوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اس کو اپنے توہماتی عقائد کے غیر موافق پا کر اس کے مخالف بلکہ دشمن بن گئے۔نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا فکر مزید آگے نہ بڑھ سکا۔

یونان کے فلسفی سقراط (Socrates) کو زبردستی زہر کا پیالہ پلا کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ وہ— ان دیوتاؤں کو نظر انداز کرتا ہے جس کو شہر ایتھنز کے لوگ پوجتے ہیں۔ وہ مذہب میں نئے نئے طریقے نکالتا ہے ، وہ یونان کے نوجوانوں کے ذہن کو خراب کر رہا ہے۔ سقراط کو ہلاک کرنے کا یہ واقعہ 399قبل مسیح میں پیش آیا۔

گلیلیو نے زمین کی گردش کے نظریہ کی تائید کی تو رومی کلیسا اس کا سخت دشمن ہو گیا۔ اس پر مذہبی عدالت میں مقدمہ چلا یا گیا۔ اس کو اندیشہ ہوا کہ اس کو موت سے کم کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ چنانچہ اس نے فلکیاتی نظریہ سے توبہ کر لی۔ اس نے رومی کلیسا کی عدالت کے سامنے ان الفاظ میں اپنے رجوع کا اعلان کیا :

’’ میں گلیلیو ، عمر 70سال ، آپ لوگوں کے سامنے گھٹنے ٹیک کر انجیل مقدس کو گواہ بنا کر اس پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں ، اور زمین کی حرکت کے بعیداز حقیقت دعوے سے دست بردار ہوتا ہوں ، اس سے انکار کرتا ہوں اور اس نظریہ کو قابل نفرت خیال کرتا ہوں ‘‘۔

یہ کوئی ایک واقعہ نہ تھا۔ اس زمانہ میں مسیحی علما کا یہی عام طریقہ تھا۔ نئی حقیقتوں کی کھوج اور فطرت کے رازوں کی تلاش جس کا نام سائنس ہے ، ان کو انھوں نے صدیوں تک ممنوع بنائے رکھا۔ ایسی چیزوں کو کالا علم ، جادو ، اور شیطانی تعلیم بتایا جاتا تھا۔ ان حالات میں نا ممکن تھا کہ تحقیق وتلاش کا عمل مفید طور پر جاری رہ سکے۔ قرون وسطی میں یہ کام پہلی بار مسلمانوں کے ذریعہ شروع ہوا۔ کیونکہ قرآن کی تعلیمات نے ان کے ذہن سے وہ تمام رکاوٹیں ختم کر دیں جو گلیلیو جیسے لوگوں کی راہ میں حائل تھیں۔ اس کی ایک مثال نظام شمسی کی گردش کا معاملہ ہے۔ اس معاملہ میں صحیح نقطہ نظر کی حوصلہ افزائی پہلی بار اسلامی انقلاب کے بعد ہوئی، اور پھر مزید ترقی کرتے ہوئے وہ جدید دریافت تک پہنچی۔

 قدیم یونان میں ایک عالم فلکیات گزرا ہے، جس کو ارسٹارکس  (Aristarchus of Samos) کہا جاتا ہے۔ اس کا انتقال 270ق م میں ہوا۔ اس نے شمسی نظام کا مطالعہ کیا، اور غالباً پہلی بار آفتاب مرکزی(Heliocentric) نظریہ پیش کیا۔ یعنی یہ کہ سورج مرکز میں ہے اور زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے۔ تاہم اس کے نظریہ کو لوگوں کے درمیان مقبولیت حاصل نہ ہو سکی۔

اس کے بعد بطلیموس (Ptolemy) پیدا ہوا۔ اس کا زمانہ دوسری صدی عیسوی ہے۔ بطلیموس نے اس کے بر عکس زمین مرکزی (geocentric) نظریہ پیش کیا۔ یعنی یہ کہ زمین مرکز میں ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہاہے۔

زمین مرکزی نظریہ مسیحی حضرات کو اپنے اس عقیدہ کے عین مطابق محسوس ہوا جو انھوں نے حضرت مسیح کے بعد بنایا تھا۔ اور جس کی تصدیق آخری طور پر 325ء میں نیقیا (Nicaea) کی کونسل میں ہوئی۔ قسطنطین اعظم (280-337) کے مسیحیت قبول کرنے کے بعد عیسائیت سارے رومی علاقہ میں پھیل گئی ، اور اس کو زبردست اقتدار حاصل ہو گیا۔ اب مسیحی حضرات نے بطلیموس کے نظریہ کی خصوصی سر پرستی کی ، اور ارسٹارکس کے نظریہ کو مکمل طور پر تاریکی میں ڈال دیا۔

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کے الفاظ ہیں ، اس کے بعد اس نقشہ کائنات میں مزید غوروفکر کا موقع باقی نہ رہا۔ 17 ویں صدی عیسوی کے آخر تک تقریباً ہر جگہ یہی نظریہ پڑھایا جاتا رہا :

There was no further scope for cosmology in the model, which continued to be taught and used almost everywhere until the 17th century . (EB-18/1013)

مگر مسلمان جو غیر مقدس کو مقدس سمجھنے کی غلطی میں مبتلا نہیں تھے ، انھوں نے اس معاملہ پر کھلے ذہن کے ساتھ خالص علمی انداز میں غور کیا ، انھوں نے پایا کہ آفتاب مرکزی نظریہ زیادہ قرین عقل ہے ، چنانچہ انھوں نے اس کو اختیار کر لیا۔ 

ایڈورڈ میکنال برنس (Edward McNall Burns) نے اس موضوع پر کلام کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ نظریہ کہ سورج ہمارے شمسی نظام کے مرکز میں ہے ، اب ایک ثابت شدہ واقعہ بن چکا ہے۔ یہ نظریہ ابتداء ً ارسٹارکس (230-310 ق م ) نے پیش کیا تھا۔ مگر تقریباً چار سو سال بعد ارسٹارکس کا نظریہ دب گیا۔ اور بطلیموس کا زمین مرکزی نظریہ غالب آگیا۔ اس کے بعد 12 سو سال سے بھی زیادہ مدت تک بطلیموس کا نظریہ ساری دنیا میں لوگوں کے ذہنوں پر چھایا رہا۔ 1496ء میں کو پرنیکس نے بتایا کہ زمین ہماری دنیا کا مرکز نہیں ہے۔ تحقیق اور فلکیاتی مطالعہ کے بعد کوپر نیکس اس نتیجہ پر پہنچا کہ سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ مگر چرچ کی مخالفت کے اندیشہ کی بنا پر وہ اپنی تحقیقات کے نتائج کو شائع کرنے سے 1543ء تک رکا رہا۔

اسپینی مسلمانوں نے کسی اور مضمون کو اتنی ترقی نہیں دی جتنی سائنس کو۔ درحقیقت اس میدان میں ان کی کامیابی نہایت اعلیٰ تھیں، جو اب تک دیکھی نہیں گئی تھیں۔ اسپینی مسلمان فلکیات ، ریاضیات ، طبیعیات ، کیمسٹری اور طب میں ممتاز ترین علمی درجہ رکھتے تھے۔ ارسطو کے احترام کے باوجود وہ اس سے نہیں ہچکچائے کہ وہ اس نظریہ پر تنقید کریں کہ زمین کائنات کا مرکز ہے۔ انھوں نے اس امکان کو تسلیم کیا کہ زمین اپنے محور پر گردش کرتی ہوئی سورج کے گرد گھوم رہی ہے :

Despite their reverence for Aristotle, they did not hesitate to criticize his notion of a universe of concentric spheres with the earth at the centre, and they admitted the possibility that the earth rotates on its axis and revolves around the sun .

(Edward Mc Nall Burns, Western Civilization, W.W. Norton & Company Inc, New York, 1995, pp. 36)

نظام شمسی کے بارے میں مسلمانوں کا صحیح نظریہ تک پہنچنا، صرف اس لیے ممکن ہو سکا کہ اسلام نے پابندیٔ فکر کے اس ماحول کو توڑ دیا، جو انسان کے لیے ذہنی ترقی میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ مصنوعی بندشوں کے ختم ہوتے ہی انسانی فکر کا قافلہ تیزی سے ترقی کی طرف سفر کرنے لگا اور بالآخر اس مرحلہ تک پہنچا جہاں وہ بیسویں صدی میں ہم کو نظر آرہا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom