چار دور
قرآن میں تقریباً ایک درجن مقامات پر یہ بات کہی گئی ہے کہ اسلام کی صورت میں جو دین بھیجا گیا ہے، وہ انسانوں کے لیے ہدایت بھی ہے اور رحمت بھی (هُدًى وَرَحْمَةٌ)۔ مثلاً سورہ الانعام، آیت 157۔ہدایت سے مراد اس کا مذہبی پہلو ہے ، اور رحمت سے مراد ، ایک اعتبار سے ، اس کا دنیوی پہلو۔ اسلام کے ذریعے ایک طرف یہ ہوا کہ انسان کو سچا اور بے آمیز دین ملا۔ انسان اور اس کے رب کے درمیان تعلق قائم کرنے کے لیے جو مصنوعی رکاوٹیں حائل تھیں ، وہ سب ہمیشہ کے لیے ختم کر دی گئیں۔ قرآن وسنت کی صورت میں رہنمائی کا ایک ابدی مینار کھڑا کر دیا گیا، جس سے ہر دور کا آدمی روشنی حاصل کرتا رہے۔
اسی کے ساتھ دوسری ، نسبتاً ثانوی درجہ کی بات، یہ ہوئی کہ اسلام کے ذریعے ایک ایسا انقلاب برپا ہوا جس نے انسان کے اوپر دنیوی رحمتوں کا دروازہ کھولا۔ اس نے انسانی تاریخ کو تاریکی کے دور سے نکال کر روشنی کے دورمیں داخل کر دیا۔ اسلامی انقلاب کا یہی دوسرا پہلو ہے، جس کا اعتراف مشہور مغربی مورخ ہنری پرین (Henry Perrine) نے ان الفاظ میں کیا ہے— اسلام نے کرہ ارض کی صورت بدل دی ، تاریخ کا روایتی ڈھانچہ اکھاڑ کر پھینک دیا گیا :
Islam changed the face of the globe. The traditional order of history was overthrown. (A History of Europe, p. 46)
وہ چیز جس کو جدید ترقی یافتہ دور کہا جاتا ہے — سائنس اور صنعت کا دور، آزادی اور مساوات کا دور، وغیرہ۔ وہ تمام تر اسلامی انقلاب کے اس پہلو کا نتیجہ ہے جس کو قرآن میں ’’ رحمت ‘‘ کہا گیا ہے۔ یہ دور دوسرے تمام کائناتی واقعات کی طرح ، تدریجی طور پر ظہور میں آیا اور تقریباً ایک ہزار سال میں اپنی انتہا کو پہنچا۔
اس تدریجی عمل کو اگر دوروں اور مرحلوں میں تقسیم کیا جائے تو بڑی تقسیم کے اعتبار سے اس کو چار مرحلوںمیں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ابتدائی تین مرحلے اسلامی انقلاب کے براہ راست مرحلے کی حیثیت رکھتے ہیں اور چوتھا مرحلہ بالواسطہ مرحلہ :
1 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ 610-632
2 خلفاء راشدین کا زمانہ 632-661
3 بنو امیہ اور بنو عباس کا زمانہ 661-1492(اسپین تک )
4 یورپ کا جدید انقلاب جو صلیبی جنگوں کے بعد نیز اسپین کی مسلم تہذیب کے زیر اثر پندرھویں صدی عیسوی میں شروع ہوا۔