ایک وضاحت

نئی دہلی سے ایک انگریزی کتاب چھپی ہے۔ وہ بچوں اور عام قارئین کے لیے ہے اور 22 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا نام ہے — زیرو کی کہانی :

Dilip M. Salwi, Story of Zero, Children's Book Trust, New Delhi, pp. 28, 1988

کتاب میں بتایا گیا ہے کہ زیرو کا تصور انڈیا میں دریافت کیا گیا۔ اس سے پہلے بڑی گنتیوں کو بتانے کے لیے کوئی آسان طریقہ موجود نہ تھا۔ ایک طریقہ کے مطابق ، کچھ خاص گنتیوں کے لیے بعض الفاظ مقرر تھے۔ مثلا سہا سرا (1000)آیوتا (10000)لکشا (100000) کوٹی (10000000) ، وغیرہ۔ زیرو کی ایجاد نے علم الحساب میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کر دی۔ اب بڑی گنتیوں کو بتانا نہایت آسان ہو گیا۔

برہما گپت (598-660) ملتان میں پیدا ہوا۔ اس نے پہلی بار زیرو (صفر ) کا طریقہ مقرر کرنے کی کوشش کی۔ تاہم اس کے طریقہ میں کچھ خامی تھی۔ اس کے بعد بھاسکر (1114-1185) بیجا پور میں پیدا ہوا۔ اس نے سنسکرت میں ایک کتاب ’’لیلاوتی ‘‘ لکھی۔ اس کتاب میں زیرو کے اصول کو زیادہ سادہ اور آسان انداز میں بیان کیا گیا تھا۔

مسٹر آر کے مورتی نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ بات ہمارے قومی فخر کے احساس کو بڑھاتی ہے کہ زیرو کا نظریہ انڈیا میں پیدا ہوا:

It boosts our sense of national pride to note that the zero was conceived in india . (Times of India, January 30, 1989, p. 6)

مصنف اس کتاب کے ذریعہ اپنے قارئین کو بتاتے ہیں کہ ہندستانی گنتی پہلے ہندستان سے اسپین میں داخل ہوئی۔ پھر وہ اٹلی ، فرانس ، انگلینڈ اور جرمنی پہنچی۔ ہندستانی گنتی کو مغرب میں پوری طرح قبول کر لیا گیا۔ ان کی قبولیت ریاضی اور سائنس کے لیے ایک نقطہ انقلاب بن گئی :

The Indian numbers first entered Spain, then Italy, France, England and Germany... Indian numbers were accepted completely... Their adoption turned to the turning point in the history of mathematics and science.

یہ صحیح ہے کہ زیرو (صفر ) کا تصور ابتداء ً انڈیا میں پیدا ہوا۔ مگر یہ صحیح نہیں کہ وہ ہندستان سے براہ راست مغربی دنیامیں پہنچا۔ یہ طریقہ عربوں کے ذریعہ مغربی دنیا میں پہنچا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں اس کو ہندستانی گنتی کے بجائے عربی گنتی (Arabic numerals) کہا گیا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1984) کے الفاظ یہاں نقل کیے جاتے ہیں:

Arabic numerals — the numbers, 0,1,2,3,4,5,6,7,8,9;  they may have originated in India but were introduced to the western world from Arabia . (EB-1/469)

عربی اعداد ، یعنی صفر سے لے کر 9 تک گنتی کی ایجاد، ہو سکتا ہے کہ انڈیا میں ہوئی ہو، مگر مغربی دنیا میں وہ عرب کے ذریعے پہنچے۔

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا دوسری جگہ بتاتی ہے کہ یورپ کے تعلیم یافتہ طبقے تک یہ اعداد نویں صدی عیسوی کے عرب ریاضی داں الخوارزمی کی تحریروں کے ذریعہ پہنچے۔ الخوارزمی نے ہندستانی گنتی کے اصول کو عربی میں لکھا۔ پھر یہ عربی کتاب لاتینی میں ترجمہ ہو کر یورپ تک پہنچی۔  (EB 10/817)

برٹر ینڈرسل نے لکھا ہے کہ محمد بن موسی الخوارزمی نے جو ریاضی اور فلکیات کی سنسکرت کتابوں کا ایک عرب مترجم تھا، 830 ء میں ایک کتاب شائع کی۔ بارھویں صدی عیسوی میں اس کتاب کا ترجمہ عربی سے لاتینی زبان میں کیا گیا۔ یہی کتاب تھی جس سے مغرب نے پہلی بار اس چیز کو جانا جس کو ہم عرب اعداد کہتے ہیں۔ اگرچہ با عتبار حقیقت اس کو ہندستانی اعداد کہنا چاہیے۔ اسی مصنف (الخوارزمی ) نے الجبرا پر ایک کتاب لکھی جو سولھویں صدی تک مغرب میں نصاب کی کتاب کے طور پر استعمال کی جاتی رہی۔

Bertrand Russell: A History of Western Philosophy,  London 1984,  p. 416

 زیرو کا نظریہ اگرچہ انڈیا میں بنا۔ مگر کئی سو سال تک اس کو خود انڈیا میں مقبولیت حاصل نہ ہو سکی۔ انڈیا میں بھی اس کی مقبولیت اس وقت بڑھی، جب کہ اولاً عربوں نے اور پھر یورپ نے اس کو اختیار کر لیا۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کا مقالہ نگار لکھتا ہے کہ یہ ایجاد جو اغلباً ہندوؤں نے کی ، ریاضی کی تاریخ میں زبردست اہمیت رکھتی ہے۔ ہندو لٹریچر اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ زیرو ممکن ہے کہ حضرت مسیح کی پیدائش سے قبل معلوم رہا ہو ، مگر ایسا کوئی کتبہ نہیں پایا گیا ہے، جو نویں صدی سے پہلے کا ہو :

The invention, probably by the Hindus, of the digit zero has been described as one of the greatest importance in the history of  mathematics. Hindu literature gives evidence that the zero may have  been known before the birth of Christ, but no inscription has been found with such a symbol before the 9th century  (EB-1/1175).

یہ بات بذات خود صحیح ہے کہ زیرو (صفر ) کو استعمال کرنے کا تصور ابتداء ً ایک ہندستانی ذہن کے اندر پیدا ہوا۔ مگر اُس وقت ہندستان میں مکمل طور پر شرک اور توہم پرستی کا غلبہ تھا۔ ہر چیز کے ساتھ پر اسرار عقائد وابستہ ہو گئے تھے۔ نئی چیزوں کو سخت توحش کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اس بنا پر قدیم ہندستان میں صفر کے تصور کو عمومی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔ وہ انفرادی دریافت بن کر رہ گیا ، اجتماعی مقبولیت کے درجہ تک نہیں پہنچا۔

اسلام نے جب شرک اور توہم پرستی کے ماحول کو ختم کیا تو وہاں جس طرح دوسری نئی چیزوں کو پذیرائی ملی ، اسی طرح صفر کے تصور کو بھی پذیرائی ملی۔ ہندستان کے بیج کو موافق زمین مسلم بغداد میں ملی۔ وہاں وہ درخت بنا، اور پھر مسلمانوں ہی کے ذریعہ اسپین پہنچ کر پورے یورپ میں پھیل گیا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom