تمام خرابیوں کی جڑ
غیر مقدس کو مقدس ماننا تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ یہی وہ چیز ہے، جس کو دینی اصطلاح میں شرک کہا جاتا ہے۔ شرک کو قرآن میں ظلم عظیم کہا گیا ہے(31:13)۔
ظلم کے اصل معنی ہیں کسی چیز کو ایسی جگہ رکھنا ،جو اس کی جگہ نہ ہو (وَضْعُ الشَّيْءِ فِي غَيْرِمَوْضِعِهِ الْمُخْتَصِّ بِهِ )المفردات فی غریب القرآن للاصفہانی، صفحہ 537۔ شرک سب سے بڑا ظلم اس لیے ہے کہ وہ اس نوعیت کا سب سے زیادہ سنگین فعل ہے۔ وہ ایسی چیزوں کو مقدس اور معبود قرار دیتا ہے، جو حقیقۃ ً مقدس اور معبود نہیں ہیں۔ وہ غیر خدا کو وہ مقام دیتا ہے، جو صرف ایک خدا کے لیے مخصوص ہے۔
اس ظالمانہ فعل کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی کا مرجع پرستش بدل جاتا ہے۔ وہ ایسی ہستیوں کو پوجنے لگتا ہے، جو اس کی اہل نہیں کہ انھیں پوجا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کائنات میں اس واحد سہارے سے محروم ہو جاتا ہے، جس کے سوا آدمی کے لیے کوئی سہار ا نہیں۔ وہ اپنے آپ کو اس کا مستحق بنا لیتاہے کہ اس کو ربانی رحمتوں میں سے کوئی حصہ نہ ملے ، اور جو شخص ربانی رحمتوں سے محروم ہو جائے وہ ابدی طور پر محروم ہو گیا۔ کیوں کہ کسی اور کے پاس یہ طاقت ہی نہیں کہ وہ کسی شخص کو رحمت اور عنایت دے سکے۔
یہ نقصان وہ ہے جو حیات ابدی کے اعتبار سے ہے۔ مگر موجودہ دنیا کی حیات عارضی کے اعتبار سے بھی اس میں نقصان اور خسارہ کے سوا اور کچھ نہیں۔ قدیم زمانے میں انسان نے بہت سی غیر مقدس چیزوں کو مقدس مان لیا تھا۔ اس کے نتیجہ میں وہ مسلسل نقصان اور خسارہ سے دو چار ہوتا رہا۔
اس مشرکانہ نظریے کے تحت اور بہت سے عقیدے بن گئے۔ یہاں تک کہ اوہام وخرافات کا ایک پورا سلسلہ قائم ہو گیا۔ مثلاً جب بجلی چمکی تو سمجھ لیا گیا کہ یہ دیوتا کا آتشیں کوڑا ہے۔ چاند یا سورج گرہن پڑا تو فرض کر لیا گیا کہ دیوتا پر کوئی مصیبت کا وقت آیا ہے ، وغیرہ، وغیرہ۔
تقدس کا یہ مشرکانہ عقیدہ مذہبی پیشواؤں کے لیے نہایت مفید تھا۔ انھوں نے اس کو پورا نظریہ بنا ڈالا ،اور خدا اور انسان کے درمیان واسطہ بن کر لوگوں کو خوب لوٹنے لگے۔ انھوں نے لوگوں کے اندر یہ ذہن پیدا کیا کہ مذہبی پیشواؤں کو خوش کرنا بالواسطہ طور پر خدا کو خوش کرنا ہے۔
اس کا سب سے بڑا فائدہ بادشاہوں کو ملا۔ انھوں نے عوام کے اس ذہن کو استعمال کرتے ہوئے خدائی بادشاہ (God-king) کا نظریہ بنایا۔ بادشاہ کے پاس کسی سماج میں سب سے زیادہ طاقت اور دولت ہوتی ہے۔ وہ مختلف اعتبار سے عام لوگوں سے ممتاز ہوتا ہے۔ اس امتیاز سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بادشاہوں نے لوگوں کو یقین دلایا کہ وہ عام انسانوں سے برتر ہیں۔ وہ زمین پر خدا کے نمائندے ہیں۔ کسی نے صرف اتنا کہا کہ وہ خدا اور بندوں کے درمیان بیچ کا واسطہ ہے۔ کسی نے آگے بڑھ کر یہ یقین دلایا کہ وہ خدا کا جسمانی ظہور ہے۔ وہ فوق الطبیعی طاقتوں کا مالک ہے۔ اس بنا پر قدیم زمانے کے بادشاہ اپنی رعایا پر مطلق اختیار کے حامل بن گئے۔
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کے مقالہ نگار نے مقدس بادشاہت (sacred kingship) کے تحت لکھا ہے کہ ایک وقت میں جبکہ مذہب مکمل طور پر فرد کی پوری زندگی نیز اجتماع کی زندگی سے پوری طرح وابستہ تھا ، اور جب کہ بادشاہت مختلف درجے میں مذہبی طاقتوں یا مذہبی اداروں سے وابستہ تھی ، اس وقت کوئی بھی بادشاہت دنیا میں ایسی نہ تھی جو کسی پہلو سے مقدس نہ سمجھی جائے :
At one time, when religion was totally connected with the whole existence of the individual as well as that of the community and when kingdoms were in varying degrees connected with religious powers or religious institutions, there could be no kingdom that was not in some sense sacred (EB-16/118)
لارڈ ایکٹن (1834-1902) نے کہا ہے کہ اقتدار بگاڑتا ہے، اور کامل اقتدار بالکل ہی بگاڑ دیتا ہے :
Power corrupts and absolute power corrupts absolutely.
قدیم شرک نے جب حکمرانوں کو مقدس حیثیت دی تو اس نے بیک وقت دو شدید برائیاں سماج میں پیدا کر دیں۔ اس نے اقتدار کی برائی کو اس کے آخری ممکن درجہ تک پہنچا دیا۔ اسی کے ساتھ یہ کہ اب عوام کے لیے حکمراں کو بدلنا ممکن نہ تھا۔ کیوں کہ جو حکمراں خدا کا نائب یا خدا کی تجسیم ہو ،بلکہ خود خدا ہو اس کے متعلق عوام یہ سوچ ہی نہیں سکتے تھے کہ اس کو مقام اقتدار سے ہٹائیں ، اور اس کے بڑھے ہوئے مظالم سے نجات حاصل کریں۔
یہ سیاسی برائی جس کو فرانسیسی مورخ ہنری پرین(Henry Perrine)نے مطلق شہنشاہیت (Empirical absolutism) کہا ہے ، تمام ترقیوں کی راہ میں مستقل رکاوٹ بن گئی۔ اسلام نے جب قدیم شہنشاہی نظام كو توڑا، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ انسان کے اوپر ہر قسم کی ترقیوں کا دروازہ کھلے۔ اس سلسلہ میں ہنری پرین کی کتابوں کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
ہنری پرین کے نظریے کا خلاصہ یہ ہے کہ قدیم رومی سلطنت جو بحر قلزم (Red Sea)کے دونوں طرف چھائی ہوئی تھی ، وہ رائے کی آزادی کو ختم کر کے انسانی ترقی کا دروازہ بند کیے ہوئے تھی۔ اس مطلق نوعیت کی شہنشاہیت کو توڑے بغیر انسانی ذہن کو آزادی نہیں مل سکتی تھی ، اور انسانی ذہن کو جب تک آزادانہ ماحول میں عمل کرنے کا موقع نہ ملے ، انسانی ترقی کا آغاز بھی نہیں ہو سکتا۔
راقم الحروف اس فہرست میں ایرانی شہنشاہیت کو بھی شامل کرتا ہے۔ یہ دونوں شہنشاہتیں قدیم دنیا کے بیشتر آباد حصے پر قابض تھیں، اور ریاست کے محدود شاہی فکر سے آزاد ہو کر سوچنے کے حق کو مکمل طور پر سلب کیے ہوئے تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ طویل زمانہ اقتدار کے باوجود، ایرانی یا رومی شہنشاہیت کے علاقے میں سائنسی طرز فکر کا حقیقی آغاز نہ ہو سکا۔
رسول اور اصحاب رسول نے حیرت ناک حد تک کم خون بہا کر ان شہنشاہیتوں کو ختم کیا ، اور اس طرح آزادی فکر کی راہ ہموار کر کے انسان کے لیے وسیع ترقی کا دروازہ کھول دیا۔