یونانی علوم
یورپ کا جدید ترقیاتی عہد 14-17 ویں صدی میں شروع ہوا، جس کو عام طور پر ریناساں (Renaissance) کہا جاتا ہے۔اس کے معنی نشاۃ ثانیہ (Rebirth) یا ازسر نو زندگی (Revival) کے ہیں۔ اہل یورپ اپنے اس دور کا رشتہ ایک مغربی ملک یونان سے جوڑتے ہیں۔ وہ ظاہر کرتے ہیں کہ یورپ کا دور جدید دراصل یونان کے دور قدیم کا احیاء ثانی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف ’’احیاء ‘‘ ہے، نہ کہ احیاء ثانی۔ وہ یورپ کی تاریخ میں پہلی بار پیش آیا۔چنانچہ منصف مزاج محققین نے تسلیم کیا ہے کہ مغرب کی ریناساں براہ راست طور پر عربوں کی دین ہے۔ بریفالٹ نے لکھا ہے کہ ہماری سائنس کے لیے عربوں کی دَین صرف یہ نہیں ہے کہ انھوں نے انقلابی نظریات دیے۔ سائنس کے لیے عرب کلچر کی دَین اس سے بھی زیادہ ہے۔ وہ اپنے وجود کے لیے عربوں کی مرہون منت ہے :
The debt of our science to that of the Arabs does not consist in startling discoveries of revolutionary theories. Science owes a great deal more to Arab culture, it owes its existence. (Making of Humanity, 190)
بریفالٹ نے مزید لکھا ہے کہ یہ بہت زیادہ قرین قیاس ہے کہ عربوں کے بغیر جدید صنعتی تہذیب سرے سے پیدا ہی نہ ہوتی :
It is highly probable that but for the Arabs, modern industrial civilization would never have arisen at all. (p. 202)
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کے مقالہ نگا ر نے لکھا ہے کہ کتب خانہ اسلامی معاشرہ کا ایک اہم پہلو تھا۔ کثرت سے ایسے ادارے موجود تھے جن کے یہاں ایک لاکھ سے زیادہ کتابیں موجود ہوتی تھیں۔ وہ بنیادی لٹریچر جس نے یورپ کی نشاۃ ثانیہ پیدا کی ، اس کا بڑا حصہ مسلم لائبریریوں کی عربی کتابوں کے ترجمہ سے حاصل کیا گیا تھا :
Most of the classical literature that spurred the European Renaissance was obtained from translations of Arabic manuscripts in Muslim libraries . (EB-15/646)
کچھ لوگوں کے نزدیک ،عربوں کا کارنامہ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ انھوں نے یونانی علم کو بذریعہ ترجمہ یورپ کی طرف منتقل کیا۔ پروفیسر فلپ ہٹی نے لکھا ہے کہ یونانی کلچر کا دھارا اسپین اور سسلی کے عربوں کے ذریعہ یورپ کی طرف موڑ دیا گیا ، جہاں اس نے یورپ کی نشاۃ ثانیہ پیدا کرنے میں مدد دی :
This stream (of Greek culture) was redirected into Europe by the Arabs in Spain and Sicily, whence it helped create the Renaissance of Europe . (p. 307)
مگر یہ بات صحیح نہیں۔ کیوں کہ یونانی فلسفیوں سے عربوں کو جو چیز ملی تھی وہ نظری بحثیں تھیں نہ کہ تجربی علم ، بالفاظ دیگر انھوں نے یونانیوں سے فلسفہ پایا تھا۔ انھوں نے یونانیوں سے سائنس نہیں پائی تھی جس کا ان کے یہاں وجود ہی نہ تھا۔ سائنس یا تجربی علم مسلمانوں کی ایجاد ہے۔ وہ اس علم تک تاریخ میں پہلی بار پہنچے۔ اور دوسری اقوام کو (بشمول یورپ ) اسے منتقل کیا۔
برٹر ینڈرسل نے درست طور پر لکھا ہے کہ سائنس ، عربوں کے وقت تک دو پہلو رکھتی تھی۔ (1) ہم کو اس قابل بنانا کہ ہم چیزوں کو جانیں۔ (2) ہم کو اس قابل بنانا کہ ہم چیزوں کو کریں۔ یونانی ، باستثناء ار شمید س، ان دو میں سے صرف پہلی چیز سے دلچسپی رکھتے تھے۔ سائنس کے عملی استعمالات میں دلچسپی اولاً توہم پرستی اور جادو کے ذریعہ آئی :
Science, ever since the time of the Arabs, has had two functions: (1) to enable us to know things, and (2) to enable us to do things. The Greeks, with the exception of Archimedes, were only interestd in the first of these.... interested in the first of these…Interest in the practical uses of science came first through superstition and magic. (The Impact of Science on Society, p. 29)
برٹر ینڈرسل نے مزید لکھا ہے کہ آج کے ایک تعلیم یافتہ کو یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ کسی بات کو ماننے سے پہلے مشاہدہ کے ذریعہ اس کی تحقیق کی جائے نہ کہ محض تقلیدی طور پر اس کو مان لیا جائے۔ مگر یہ مکمل طور پر ایک جدید نقطہ نظر ہے ،جو بمشکل ہی 17 ویں صدی سے پہلے اپنا وجود رکھتا تھا۔ ارسطو نے دعویٰ کیا کہ عورتوں کے منھ میں کم دانت ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس نے دو شادیاں کیں ، وہ ایسا نہ کر سکا کہ اپنی بیوی کے منھ کو کھول کر دیکھے اور مشاہدہ کی بنیاد پر اپنی رائے قائم کرے۔ برٹر ینڈرسل نے اس قسم کی بہت سی مثالیں دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ارسطو نے بلا تحقیق بہت سی باتیں کہہ دیں اور بعد کے لوگ بھی بد ستور بلا تحقیق ان باتوں کو دہراتے رہے۔ (صفحہ 17)