نئی دنیا کی تخلیق
محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو دین لائے تھے اس کو عرب کے تمام لوگوں نے قبول کر لیا۔ اس کے بعد وہ حیرت ناک تیزی کے ساتھ پھیلنا شروع ہوا۔ حتی کہ ایک صدی سے کم عرصہ میں وہ ایشیا اور افریقہ کو مسخر کرتا ہو ا یورپ میں داخل ہو گیا۔ امریکہ کو چھوڑ کر تقریبا ً تمام ملکوں اور تمام سمندروں پر بالواسطہ یا براہ راست طور پر اس دین کے پیروؤں کا غلبہ قائم ہو گیا۔
یہ سلسلہ ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ نائیجیر یا کی سو کو تو خلافت (Sokoto Caliphate) سے لے کر انڈونیشیا کے مسلم سلطان تک اور تر کی کی عثمانی خلافت سے لے کر ہندستان کی مغل بادشاہت تک ، گویا ایک عظیم ملک تھا جو موجودہ طرز کی قومی حدود سے نا آشنا تھا۔ مسلمان اس پورے علاقے میں تجارت تعلیم یا دوسرے مقاصد کے تحت بہ آسانی سفر کر سکتے تھے۔
یہی وہ زمانہ ہے جب کہ چودھویں صدی عیسوی میں ابن بطوطہ نے تقریباً75 ہزار میل کا سفر طے کیا۔ وہ ایک ملک سے دوسرے ملک میں اس طرح پہنچا کہ کہیں وہ اجنبی نہ تھا۔ کہیں اس کے لیے بے روزگاری کا مسئلہ نہ تھا۔ وہ محمد بن تغلق (1325-51ء) کے زمانہ میں دہلی آیا۔ یہاں اس کو نہ صرف تحفے تحائف ملے ، بلکہ اس کو دہلی کا قاضی القضاۃ (چیف جسٹس ) بنا دیا گیا۔ (EB-9/144)
اس عالمی انقلاب کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام انسان ایک ہی انسانی برادری کا حصہ نظر آنے لگے مساوات انسانی کا یہ ذہن نہایت تیزی سے ساری دنیامیں چھا گیا۔ اولاً اس نے مدینہ پر غلبہ حاصل کیا۔ اس کے بعد دمشق اس کا مرکز بنا۔ پھر وہ بغداد پہنچا۔ اس کے بعد اسپین اور سسلی ہوتا ہوا وہ یورپ کے قلب میں داخل ہو گیا۔
یورپ کی اکثریت نے اگرچہ مذہبی اعتبار سے اسلام کو قبول نہیں کیا۔ مگر کائنات کے بارے میں اسلام (توحید ) کے نقطہ نظر کو انھوں نے پوری طرح لے لیا، اور اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ کا سائنسی اور جمہوری انقلاب اسلام کے انقلاب توحید کا ’’سيکولر ایڈیشن ‘‘ ہے۔ اس انقلاب کے اُخروی پہلو کو الگ کر کے اس کے دنیوی پہلو کو اختیار کرنے ہی کا دوسرا نام مغرب کا جدید انقلاب ہے۔
ایسی حالت میں يه کہنا ادنیٰ مبالغے کے بغیر درست ہے کہ انسانی تاریخ سے اگر اسلام کو نکال دیا جائے تو اسی کے ساتھ تمام تمدنی اور انسانی ترقیوں کو بھی نکال دینا پڑے گا۔ اس کے بعد دنیا دوبارہ اسی تاریکی کے دور میں چلی جائے گی ،جہاں وہ اسلامی انقلاب سے پہلے پائی جا رہی تھی۔