آزادئ فکر

قدیم زمانے میں انسان کو فکرو خیال کی آزادی حاصل نہ تھی۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کے الفاظ میں ، فکری احتساب کی کچھ صورتیں تمام قوموں میں رائج تھیں ، خواہ وہ چھوٹی ہوں یا بڑی۔ احتساب کی یہ صورت حال دنیا کے تمام حصوں میں اور تاریخ کے تمام دوروں میں پائی جاتی رہی ہے :

Some form of censorship has appeared in all communities, small and large, in all parts of the world, at all stages of history . (EB-3/1083)

انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس میں 25 صفحات پر مشتمل ایک مقالہ ہے جس کا عنوان تعذيب (persecution)ہے۔ اس مفصل مقالے میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح قدیم تاریخ کے تمام ادوار میں ساری دنیا میں لوگ آزادیٔ رائے کے حق سے محروم تھے۔ تمام لوگ مجبور تھے کہ وہ وہی سوچیں، جو حکمراں طبقہ کی سوچ ہے۔ مقالے میں اس طرح کی تفصیلات دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ قدیم انسانی سماج بنیادی طور پر غیر روادار تھا :

Ancient society was essentially intolerant  (743)

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (جلد 3)میں احتساب (censorship) کے عنوان کے تحت 8 صفحہ کا ایک مقالہ ہے، جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کس طرح تاریخ کے پچھلے ادوار میں ساری دنیامیں فکری دارو گیر کا عام رواج تھا۔ قدیم چین میں شہریوں کو آزادیٔ فکر حاصل نہ تھی۔ شِہ ہوانگ ٹی  (Shih Huang Ti) نے عظیم دیوار چین بنوائی۔ مگر اسی کے ساتھ اس نے 213ء میں حکم دیا کہ تمام کتابیں جلا دی جائیں۔ اس سے مستثنیٰ صرف وہ کتابیں تھیں جو دوا اور زراعت جیسی بے ضرر موضوعات سے تعلق رکھتی تھیں۔ شاہی حکم میں یہ بھی شامل تھا کہ 30 دن کے اندر جو لوگ کتابیں نہیں جلائیں گے ان کو سخت سزا دی جائے گی۔ (EB-3/1083)

یونان کے بارے میں پلو ٹارک نے لکھا ہے کہ قدیم اسپارٹا کے لوگ صرف عملی ضرورتوں کے لیے لکھنا پڑھنا سیکھتے تھے۔ دوسری ہر قسم کی تعلیم اور کتابوں پر پابندی لگی ہوئی تھی۔ یونان کے دوسرے حصہ ایتھنز میں آرٹ اور فلسفہ کو ترقی ہوئی۔ مگر اکثر آرٹسٹ اور فلسفی ، جن میں سقراط اور ارسطو جیسے لوگ بھی شامل ہیں ، ان کو یا تو قید کر دیا گیا یا جلا وطن کر دیا گیا۔ بہت سے اہل علم قتل کر دئیے گیے۔ کچھ لوگوں نے بھاگ کر اپنی جان بچائی ۔ (  EB-3/1084)

قدیم روم میں فکرو خیال کے احتساب کے لیے ایک مستقل سر کاری محکمہ 443 ق م میں قائم کیا گیا۔ تنقید کو وہ لوگ بغاوت کے ہم معنی سمجھتے تھے۔ آزادانہ تقریر کرنا ممنوع تھا۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے مقالہ نگار نے اس سلسلہ میں روم کے کئی ممتاز شہریوں کی مثالیں دی ہیں، جنھیں صرف اس لیے سخت سزائیں دی گئیں کہ انھوں نے حکمراں طبقہ پر تنقید کی تھی۔ (3/1084) حضرت مسیح کے بعد ابتدائی تین صدیوں تک یہودی اور عیسائی صرف اعتقادی اختلاف کی بنیادپر ایک دوسرے کے دشمن بنے رہے۔ پہلے یہودیوں نے مسیحی حضرات کو اپنے ظلم کا نشانہ بنایا۔ اس کے بعد جب مسیحی حضرات کو اقتدار ملا تو انھوں نے یہودیوں سے جارحانہ انداز میں انتقام لینا شروع کیا۔ ( EB-3/1084-85)

قدیم زمانے میں آزادیٔ فکر پر پابندی کی ایک وجہ یہ تھی کہ محرف مذاہب نے جن خود ساختہ عقائد پر اپنے مذہبی نظام کا ڈھانچہ کھڑا کر رکھا تھا ، فکری آزادی کا ماحول اس کے لیے خطرہ کے ہم معنی تھا۔ انھیں اندیشہ تھا کہ اگر آزادانہ تحقیق کو فروغ ہوا تو وہ لوگوں کی نظر میں اپنی صداقت کو برقرار نہ رکھ سکیں گے۔ سولھویں اور سترھویں صدی میں یورپ میں جن لوگوں نے سائنسی انداز سے ٖغوروفکر کرنا چاہا ، ان پر مسیحی چرچ نے زبردست مظالم کیے۔ اس کی وجہ یہی مذکورہ بالا اندیشہ تھا۔ ان مظالم کی تفصیل جان ولیم ڈریپر (John William Draper, 1811-1882) کی کتاب مذہب  او رسائنس میں تصادم کی تاریخ (History of the Conflict Between Religion and Science, 1874)  میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اگرچہ اس کا زیادہ صحیح نام سائنس اور مسیحیت میں تصادم ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom