شرک کی طرف

قرآن کے مطابق زمین پر انسانی نسل کا آغاز آدم سے ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو بتا دیا تھا کہ تمہارا اور تمہاری نسلوں کا دین توحید ہوگا، اسی میں تمہاری دنیا کی بھلائی بھی ہے اور اسی میں تمہاری آخرت کی بھلائی بھی۔ ابتدائی کچھ دنوں تک لوگ صحیح راستے پر قائم رہے۔ اس کے بعد ان میں بگاڑ شروع ہو گیا۔ اب اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا (2:213 )۔

حضرت مسیح سے غالباً تین ہزار سال پہلے عراق میں نوح بن لامخ پیدا ہوئے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بنایا ،اور انھیں قوم کی اصلاح کا کام سپرد کیا۔ اس کے بعد سے لے کر مسیح ابن مریم تک مسلسل پیغمبر آتے رہے ،اور لوگوں کو سمجھاتے رہے ، مگر لوگ دوبارہ اصلاح قبول کرنے پر تیار نہ ہو سکے ( 23:44)۔

اس بگاڑ کا سبب لوگوں کی ظاہر بینی تھی۔ توحید کا مطلب غیب کے معبود کو عظمت دینا ،اور اس کی پرستش کرنا ہے۔ لوگ غیب کے معبود کو اپنا خدا نہ بنا سکے۔ اس کے بجائے انھوں نے نیچر کو معبود کا درجہ دے دیا۔ دنیا کا آغاز توحید پر ہوا تھا ، مگر بعد کے زمانے میں جو بگاڑ پیش آیا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا کی تاریخ شرک کے رُخ پر چل پڑی۔

توحید سب سے بڑی سچائی ہے۔ انسان توحید پر قائم ہو تو اس کے تمام معاملات درست رہتے ہیں۔ وہ توحید کو چھوڑدے تو اس کے تمام معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ توحید تمام انسانوں کے لیے ان کے عروج وزوال کا پیمانہ ہے۔

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے، اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے۔ آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ اور جن لوگوں نے اللہ کی نشانیوں کا انکار کیا، وہی گھاٹے میں رہنے والے ہیں۔ کہو کہ اے نادانو ، کیا تم مجھ سے یہ کہتے ہو کہ میں غیر اللہ کی عبادت کرو ں۔ اور تمہاری طرف اور تم سے پہلے والوں کی طرف وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہو جائے گا۔ اور تم گھاٹے میں رہو گے۔ بلکہ صرف اللہ کی عبادت کرو۔ اور شکر کرنے والوں میں سے بنو۔ اور لوگوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ اور زمین ساری اس کی مٹھی میں ہو گی، قیامت کے دن ،اور تمام آسمان لپٹے ہوں گے اس کے دائیں ہاتھ میں۔ وہ پاک اور برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (39:62-67)۔

توحید سے انحراف کا اصل نقصان وہ ہے، جو آخرت میں سامنے آنے والا ہے۔ تاہم توحید چونکہ کائنات کی اصل حقیقت ہے ، اس لیے توحید سے ہٹنا حقیقتِ واقعہ سے ہٹنا بن جاتا ہے۔ اور جو لوگ حقیقتِ واقعہ سے ہٹ جائیں ، ان کی زندگی نہ صرف آخرت میں بلکہ موجودہ دنیا میں بھی بگڑ کر رہ جاتی ہے۔ یہی وہ بات ہے، جس کی طرف مذکورہ بالا آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔

اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ایک خدا کا شعور آدمی کی فطرت میں پیوست ہے۔ آدمی خود اپنے فطری تقاضے کے تحت مجبور ہے کہ وہ خدا کو مانے اور اس کے آگے جھک جائے۔ آدمی ایک خدا کو ماننے سے انکار کر سکتا ہے ، مگر یہ اس کے بس سے باہر ہے کہ وہ اپنی فطرت کا انکار کر دے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ خالق کو نہ مانیں ، انھیں اس کی یہ قیمت دینی پڑتی ہے کہ وہ مخلوق کو معبود کے طور پر  ماننے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔ وہ غیر حقیقی طور پر مخلوق کو وہ درجہ دے دیتے ہیں ،جو حقیقی طور پر صرف ایک خالق کو دینا چاہیے۔

اس دنیا کا خالق اور مالک خدا ہے۔ تمام حقیقی عظمتیں صرف اسی کو حاصل ہیں۔ انسان جب خدا کو اپنا عظیم بناتا ہے تو وہ اس ہستی کو عظیم بناتا ہے، جو فی الواقع عظمت وکبریائی کا مستحق ہے۔ خدا کو عظیم بنانے کی صورت میں آدمی حقیقتِ واقعہ پر کھڑا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کی زندگی سچی زندگی ہوتی ہے۔ وہ ہر قسم کے تضاد سے خالی ہوتی ہے۔ اس کی سوچ اور اس کا عمل دونوں صحیح رخ پر چلتے ہیں۔ اس کا وجود عالم حقائق سے پوری طرح آہنگ ہو جاتا ہے۔ اس کے اور عالم حقائق کے درمیان کہیں کوئی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔

اس کے بر عکس، آدمی جب ایسا کرتا ہے کہ وہ غیر خدا کو بڑا سمجھ لیتا ہے۔ وہ خد اکے سوا کسی اور کو بڑائی کا وہ درجہ دینے لگتاہے، جو صرف ایک خدا کے لیے خاص ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا پورا رویہ غیر حقیقی رویہ بن جاتا ہے۔ وہ ایسی بے جوڑ چیز بن جاتا ہے، جو عالم حقائق سے مطابقت نہ کر رہی ہو۔ اس کی پوری زندگی حقیقت پسندی کے بجائے تو ہم پرستی کے راستے پر چل پڑتی ہے۔

اس معاملے کی وضاحت کے لیے ایک مثال لیجیے۔ عیسائی حضرات نے عقیدۂ تثلیث کے تحت مسیح ابن مریم کو خدا فرض کر لیا۔ حضرت مسیح با عتبار واقعہ ابن مریم تھے۔ مگر عیسائی حضرات نے غلو کر کے انھیں ابن ُاللہ کا درجہ دے دیا۔ انھوں نے حضرت مسیح کو وہ عظمت دے دی، جو عظمت صرف خدائے واحد کے لیے ہے، جو مسیح سمیت تمام انسانوں کا خالق ہے۔

 اس کے نتیجے میں وہ عظیم تضاد کا شکار ہو گئے۔ انھیں تضادات میں سے ایک تضاد وہ ہے، جو نظام شمسی کے بارے میں ان کے متکلمانہ نظریات سے پیدا ہوا۔

قدیم یونان میں مشہورعالم فلکیات بطلیموس (Claudius Ptolemy) دوسری صدی عیسوی میں پیدا ہوا۔ اس نے سکندر کے زمانے میں تحقیقات کیں۔ اس نے ایک ضخیم کتاب لاتینی زبان میں لکھی۔ اس کتاب میں اس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین ٹھہری ہوئی ہے، او رسورج ، چاند اور سیارے اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اس کا زمانہ پہلی صدی عیسوی اور دوسری صدی عیسوی کے درمیان (90-168) ہے۔ مسیحی حضرات کی سر پرستی کی وجہ سے یہ نظریہ مسلسل ذہنوں پر چھایا رہا۔ یہاں تک کہ سولھویں صدی عیسوی میں کوپرنیکس نے اس کو آخری طور پر ختم کیا۔

مسیحی حضرات کے یہاں مذہب کا بنیادی عقیدہ کفارہ کا عقیدہ ہے، جس کے ذریعہ خدا نے ساری انسانیت کی نجات کا انتظام کیا۔ نجات کا واقعہ ایک ایسا مرکزی واقعہ (central event) ہے، جس کا تعلق نہ صرف انسانی نسلوں سے بلکہ ساری کائنات سے ہے۔ ساری کائنات کا یہ مرکزی واقعہ (حضرت مسیح کا گناہوں کا کفارہ بننے کے لیے مصلوب ہونا ) چونکہ زمین پر پیش آیا۔ اس لیے مسیحی علم کلام کے مطابق ، زمین ساری کائنات کا اہم ترین مقام اور اس کا مرکزی نقطہ قرار پائی۔ اس بنا پر مسیحی حضرات نے بطلیموس کے زمین مرکزی (Geocentric) نظریہ کی زبردست تائید کی ، اس کو مذہبی عقیدہ جیسی حیثیت دے دی۔

مسیحی حضرات ہراس کو شش کے مخالف بنے رہے جو سورج مرکزی (Heliocentric) نظریے کی طرف لے جانے والا ہو۔ یہاں تک کہ نکولس کوپرنیکس (Nicolaus Copernicus, 1473-1543) اور گلیلیو گلیلی (Galileo Galilei, 1564-1642) اورجان کپلر (Johannes Kepler, 1571-1630) کی تحقیقات نے اس کو آخری طور پر باطل ثابت کر دیا۔ (EB-4/522)

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کا مقالہ نگار لکھتا ہے کہ مسیحی علم کلام کے مطابق ، نجات کی اسکیم ایک کائناتی واقعہ تھا۔ مسیح کا عملِ نجات کائناتی معنویت رکھتا تھا۔ اس کا تعلق انسان سے لے لر جانوروں تک سے تھا۔ مگر جدید علم فلکیات سے معلوم ہوا کہ زمین کائنات کے وسیع سمندر میں ایک چھوٹے سنگر یزے سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی۔ اس حقیقت کی بنا پر ، خود مسیح کی معنویت بھی کسی حد تک کم ہو گئی ، اور نجات کا خدائی عمل ایک ناقابل لحاظ کرہ پر محض ایک چھوٹا سا واقعہ بن کر رہ گیا :

In view of this fact, the meaning of Christ itself lost some of its impact, and the divine act of salvation appeared merely as a tiny episode within the history of an insignificant little star.  (EB-4/522)

اس دنیا کا خالق ، مالک ، مدبر ، سب کچھ صرف ایک خدا ہے۔ ہر قسم کی بڑائی اور اختیار تنہا اسی کو حاصل ہے۔ اس کے سوا کسی اور کو کسی بھی قسم کی بڑائی یا اختیا ر حاصل نہیں۔ چنانچہ اس دنیا میں جب بھی کسی اور کو عظمت اور تقدس کا مقام دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایسا نظریہ پوری کائنات سے ٹکرا جاتا ہے ، وہ ہمہ گیر کائنات میں کہیں اپنی جگہ نہیں پاتا۔

یہی وجہ ہے کہ شرک کا نظریہ انسانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے ، اور توحید کا نظریہ انسان کے لیے ہر قسم کی ترقیوں کا دروازہ کھولنے والا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom