اسلام کا نظریہ
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام پیغمبروں کی دعوت صرف ایک تھی۔ انھوں نے ہر دور کے انسانوں سے یہ کہا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی الہٰ نہیں (اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ )۔دیکھیے سورہ الاعراف، آیت59۔
امام راغب نے أَلِهَ یأ لَہُ کے معنی تحيّرکے بتائے ہیں (المفردات في غريب القرآن، صفحہ83)۔ یعنی حیران ہونا۔ لسان العرب میں ہے : وأَصله من أَلِهَ يَأْلَهُ إذا تَحَيَّر، يُرِيدُ إِذَا وَقَعَ الْعَبْدُ فِي عَظَمَةِ اللهِ وَجَلَالِهِ ...وَقِيلَ فِي اسْمِ الْبَارِي سُبْحَانَهُ إِنَّهُ مأْخوذ من أَلِهَ يَأْلَه إذا تَحَيَّرَ، لأَن الْعُقُولَ تَأْلَهُ فِي عَظَمَتِه (لسان العرب، جلد13، صفحات 467، 469)۔یعنی لفظ الہ کی اصل حیران ہونا ہے۔ اس سے وہ کیفیت مراد ہے جو اللہ کے عظمت وجلال کے احساس سے بندے کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ لفظ اللہ اسی الہ ٰ سے (الف لام تعریف داخل کر کے ) بنا ہے۔ کیونکہ عقلیں اس کے تصور سے حیرانگی میں پڑجاتی ہیں۔
’’ الہٰ ‘‘ سے مراد وہ ہستی ہے جو حیران کن حد تک عظیم ہو۔ جس کے کمالات کو سوچ کر آدمی حیرت واستعجاب میں غرق ہو جائے۔ اسی سے تقدس کا عقیدہ پیدا ہوتا ہے۔ تقدس سے مراد کسی چیز کی وہ پراسرار صفت ہے، جو اس کو ناقابل فہم اور ناقابل ادراک حد تک بلند اور برتر بنا دیتی ہے۔ ’’ الہٰ ‘‘ وہ ہے، جو مطلق طور پر مقدس ہو ، جس کے آگے آدمی اپنی پوری ہستی کے ساتھ جھک جائے۔ جو ہر قسم کے تصرف اور تغلب سے ماورا ہو۔
اس معنی میں صرف ایک اللہ ہی الہٰ ہے۔ اس کے سوا نہ کوئی الہٰ ہے، اور نہ کسی بھی درجہ میں کوئی اس کے ساتھ الو ہیت میں شریک ہے — حقیقی الہٰ کو الہٰ ماننا تمام بھلائیوں کا سر چشمہ ہے، اور غیر حقیقی الہٰ کو الہٰ ماننا تمام برائیوں کا سر چشمہ۔