ایک مثال

ماضی کی دنیا میں جو کچھ پیش آیا ، اس کا ایک چھوٹا سا نمونہ اب بھی ہندستان میں موجود ہے۔ ہندستان موجودہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں شرک اب بھی طاقتور حالت میں باقی ہے۔ اگر کسی کو یہ دیکھنا ہو کہ شرک کس طرح وہ ماحول بننے نہیں دیتا جہاں علمی تحقیق آزادانہ طور پر جاری ہو سکے ، وہ اس کا کم از کم جزئی نمونہ آج بھی ہندستان میں دیکھ سکتا ہے۔

1967 میں دہلی کے انگریزی اخبار میں ایک ہندستانی سائنس داں کا انٹرویو چھپا۔ اس انٹرویو نے اچانک ملک میں سنسنی پھیلا دی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ہندستان کو اگلے دو دہوں میں بڑے پیمانہ پر ذہنی بونا پن کے خطرہ کا سامنا کرنا ہو گا ، اگر پروٹینی فاقہ کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش نہ کی گئی :

India may have to face the danger of large-scale intellectual dwarfing in two decades if the problem of malnutrition and protein hunger was not tackled soon.  (Statesman, Delhi, September  4, 1976)

یہ الفاظ ڈاکٹر ایم ایس سوامی ناتھن کے تھے جو اس وقت انڈین ایگریکلچرل انسٹی ٹیوٹ (نئی دہلی ) میں ڈائرکٹر تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ متوازن غذا کا تصور اگر چہ نیا نہیں ، مگر دماغ کے ارتقاء کے سلسلہ میں اس کی اہمیت ایک نئی حیاتیاتی دریافت ہے۔ اب یہ بات قطعی ہے کہ چار سال کی عمر میں انسانی دماغ 80 فیصد سے لے کر 90 فی صد تک اپنے پورے وزن کو پہنچ جاتا ہے۔ اور اگر اس نازک مدت میں بچہ کو مناسب پروٹین نہ ملے تو اس کا دماغ اچھی طرح نشوونما نہیں پا سکتا۔

ڈاکٹر سوامی ناتھن نے کہا کہ اگر ناقص تغذیہ اور پروٹینی فاقہ  (protein hunger) کے مسئلہ پر جلد توجہ نہیں دی گئی تو اگلے دو دہوںمیں ہمیں یہ منظر دیکھنا پڑے گا کہ ایک طرف متمدن قوموں کی ذہنی طاقت (intellectual power) میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف ہمارے ملک میں ذہنی بونا پن بڑھ رہا ہے۔ نوجوان نسل کو پروٹینی فاقہ سے نکالنے میں اگر ہم نے جلدی نہ کی تو اس کا یہ سنگین نتیجہ برآمد ہو گا کہ ہر روز ہمارے یہاں دس لاکھ ذہنی بونے  (intellectual dwarfs)وجود میں آئیں گے۔ اس کا بہت کچھ اثر ہماری نسلوں پر حالیہ برسوں ہی میں پڑ چکا ہو گا۔

پوچھا گیا کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہے۔ ڈاکٹر سوامی ناتھن نے اس کے جواب میں کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ اپنی کارروائیوں کے ذریعہ عوام کے اندر پروٹینی شعور (protein consciousness)  پیدا کرے اور اس سلسلہ میں رائے عامہ کو ہموار کرے۔ پروٹین کی ضرورت کا تخمینہ مقدا ر اور نوعیت دونوں کے اعتبار سے کرنا چاہیے۔ اوسط نشوونما کے لیے پروٹین کے مرکبات میں 80 قسم کے امینو ایسڈ ہونا ضروری ہیں۔ غیر لحمی غذاوں میں بعض قسم کے ایسڈ مثلاً لائسین (Lysine) اور میتھونین (Methionine)کا موجود نہ ہونا عام ہے جب کہ جوار میں لیوسین کی زیادی متعدد علاقوں میں بیماری کا سبب رہی ہے جہاں کی خاص غذا یہی اناج ہے۔ اگرچہ حیوانی غذا  (دودھ) کا بڑے پیمانہ پر استعمال پسندیدہ چیز ہے ، مگر ا س کا حصول بہت مہنگا ہے ، کیونکہ نباتاتی غذا کو حیوانی غذا کی شکل دینے کے لیے بہت زیادہ قوت ضائع کرنی پڑتی ہے۔ (اسٹیٹسمین  4ستمبر 1967)

ڈاکٹر سوامی ناتھن کے انٹرویو کی اشاعت کے بعد انڈین اکسپریس (7ستمبر 1967) نے ایک اداریہ شائع کیا، جس کا عنوان تھا : پروٹینی فاقہ  (protein hunger)  اس اداریہ میں کہا گیا تھا کہ ہندستان کی مرکزی حکومت نے جب اناج کے سلسلہ میں تائیدی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو مشکل ہی سے یہ شبہ کیا جا سکتا تھا کہ غلہ کی بہتات کے باوجود پروٹینی فاقہ کا مسئلہ سامنے آجائے گا، جیسا کہ انڈین ایگر یکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سوامی ناتھن نے نشاندہی کی ہے۔ غلوں پر زیادہ اعتماد سے ایسی صورت حال پیدا ہو گی جس سے اچھے کھاتے پیتے لوگ بھی ناقص تغذیہ میں مبتلا ہو جائیں گے۔ جو لوگ پروٹینی فاقہ سے دو چار ہوں گے ، جسمانی تکلیفوں کے علاوہ ان کے ذہنوں پر اس کے اثرات پڑیں گے اور بچوں کی ذہنی صلاحیت پوری طرح نشوونما نہیں پا سکے گی۔

انڈین اکسپریس نے مزید لکھا تھا کہ اس کو دیکھتے ہوئے موجودہ زرعی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ مگر اصل مسئلہ ان حد بندیوں (limitations) کا ہے جن میں حکومت کو کام کرنا ہو گا۔ زرعی پیداوار کو حیوانی پروٹین میں تبدیل کرنا بے حد مہنگا ہے۔ حکومت نے اگرچہ متوازن خوراک اور گوشت ، انڈے اور مچھلی کے زیادہ استعمال کی ایک مہم چلائی ہے۔ مگر اس کے باوجود عوام اپنی غذائی عادتوں (food habits) کو بدلنے میں سست ہیں (انڈین ایکسپریس 7 ستمبر 1967) ۔

ڈاکٹر سوامی ناتھن کا مذکورہ بیان اخبارات میں چھپا تو ہندستان میں ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ حتی کہ کچھ انتہا پسند لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر سوامی ناتھن ایگریکلچرل انسٹی ٹیوٹ کے عہدہ سے استعفا دیں ، کیونکہ وہ اس قومی ادارہ کی صورت کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر سوامی ناتھن بالکل خاموش ہو گئے اور بات آگے نہ بڑھ سکی۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندستان کے روایتی مذہب میں جان کو مارنا سب سے بڑا گناہ ہے۔ اور چونکہ گوشت کو غذا بنانے کے لیے جاندا ر کو مارنا پڑتا ہے ، اس لیے روایتی طور پر یہاں سبزی خوری (vegetarianism) کو معیاری خوراک قرار دیا گیا ہے۔ خاص طور پر گائے یہاں کے روایتی مذہب میں ایک مقدس جانور ہے۔ رگ وید میں گائے کو دیوی (goddess) بتایا گیا ہے (EB-3/206)۔اس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ غیر موحدانہ عقیدہ کس طرح انسانی ترقی میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔

ہندستان ایک ایسا ملک ہے جس کے پاس بے شمار وسائل اور امکانات موجود ہیں۔ اس کے باوجود وہ اب تک صحیح معنوںمیں ترقی یافتہ ملک نہ بن سکا۔ اس کی واحد وجہ اس قسم کی مشرکانہ بندشیں ہیں جنھوں نے اس کی ترقی کا راستہ روک رکھا ہے۔ یہ راستہ اس وقت تک رکا رہے گا جب تک ملک کو ان غیر حقیقی بندشوں سے آزادنہ کیا جائے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom