علوم طبیعی

آرنلڈ ٹوائن بی نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ سائنس فطرت کو استعمال کرنے کا علم ہے ، یہ فطرت کروروں سال سے ہماری دنیا میں موجود تھی۔ پھر فطر ت کو کنٹرول کرنے اور اس کو انسان کے استعمال میں لانے میں اتنی دیر کیوں لگی۔ پھر اس نے خود ہی اس کا جواب دیا ہے کہ قدیم زمانے میں فطرت انسان کے لیے پر ستش کا موضوع بنی ہوئی تھی۔ اور جس چیز کو انسان پرستش کی چیز سمجھ لے ، عین اسی وقت وہ اس کو استعمال اور تسخیر کی چیز نہیں سمجھ سکتا۔

آرنلڈ ٹوائن بی نے بجا طور پر لکھا ہے کہ قدیم انسان کے لیے فطرت صرف فطری ذرائع کے ایک ذخیرہ کے ہم معنی نہ تھی۔ بلکہ وہ دیوتا تھی ، وہ اس کے لیے مادرِ گیتی تھی۔ اور زمین پر پھیلی ہوئی نباتات، اس کی سطح پر گھومنے والے حیوانات ،اس کے اندر چھپی ہوئی معدنیات، سب کی سب خدائی اوصاف کی مالک تھیں۔ یہی حال تمام فطری مظاہر کا تھا۔ چشمے اور ندیاں اور سمندر ، پہاڑ زلزلے اور بجلی کی گرج اور چمک، سب دیوی دیوتا تھے۔ یہی قدیم زمانہ میں تمام انسانیت کا مذہب تھا :

For  (the ancient man) nature was not just a treasure trove of ‘‘natural resources” but a goddess, ‘‘Mother Earth”. And the vegetation that sprang from the earth, the animals that roamed the earth’s surface, and the minerals hiding in the earth's bowels, all partook of nature's divinity. So did allnatural phenomenon—springs and rivers and the sea; mountains; earthquakes and lightening and thunder. Such was the original religion of all mankind.

(Arnold J. Toynbee, Reader’s Digest, March 1974)

جس فطرت کو انسان معبود کی نظر سے دیکھتا ہو ، اس کو وہ تحقیق اور تسخیر کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا۔ ٹوائن بی نے مذکورہ تاریخی واقعہ کا اظہار کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا ہے کہ فطرت کے تقدس کے اس دور کو جس نے ختم کیا وہ توحید (mnotheism)کا عقیدہ تھا۔ توحید کے عقیدے نے فطرت کو معبود کے مقام سے اتار کر مخلوق کے مقام پر رکھ دیا۔ فطرت کے مظاہر کو پرستش کی چیز قرار دینے کے بجائے اس کو تسخیر کی چیز قرار دے دیا۔

توحید کا یہ نظریہ پچھلے دور میں تمام پیغمبر پیش کرتے رہے ہیں۔ تاہم پچھلے پیغمبروں کے زمانہ میں توحید کی تحریک صرف شخصی اعلان تک محدود رہی ، وہ انقلاب عام کے مرحلہ تک نہیں پہنچی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی کوششوں نے توحید کے عقیدہ کو انقلاب عام کے مرحلے تک پہنچا دیا۔ اس کے بعد اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر فطرت کے بارے میں تقدس کا ذہن ختم ہو گیا۔ اب انسان نے فطرت کو اس نظر سے دیکھنا شروع کیا کہ وہ اس کو جانے اور اس کو اپنے کام میں لائے۔ یہ عمل مسلسل جاری رہا۔ یہاں تک کہ وہ موجودہ سائنسی دور تک پہنچ گیا۔

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کے مقالہ نگار نے فزیکل سائنس کی تاریخ کے تحت لکھا ہے کہ یونانی سائنس دوسری صدی عیسوی کے بعد تعطل کا شکار ہو گئی۔ کیونکہ رومیوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ سماجی دباؤ ، سیاسی سختی ، اور چرچ کے ذمہ داروں کی مخالف پالیسی کا یہ نتیجہ ہوا کہ یونانی علما اپنے وطن کو چھوڑ کر مشرق کی طرف چلے گئے۔ ساتویں صدی عیسوی میں جب اسلام کو عروج ہوا تو اسلامی دنیا میں آخر کار اس قسم کے علما کو پذیرائی حاصل ہوئی۔ بیشتر یونانی کتابیں عربی میں ترجمہ کی گئیں۔ عربوں نے قدیم یونانی علم پر کچھ بہت اہم اضافے کیے۔ بارہویں اور تیرہویں صدی میں جب مغربی یورپ میں یونانی علوم سے دلچسپی پیدا ہوئی تو یورپی اہل علم سائنسی علوم کی تحصیل کے لیے مسلم اسپین جانے لگے۔ عربی کتابوں کے لاتینی ترجموں سے مغربی یورپ میں سائنس کا احیاء ہوا۔ قرون وسطی کے یہ اہل علم اعلیٰ کمال کے درجہ تک پہنچے اور انھوں نے سولھویں اور سترہویں صدی کے سائنسی انقلاب کی زمین تیار کی :

Scientists of the Middle Ages reached high levels of sophistication and  prepared the ground for the scientific revolution of the 16th and 17th centuries . (EB-14/385)

موسیولیباں (Charles-Marie Gustave Le Bon, 1841-1931) نے ’’تمدن عرب‘‘ میں لکھا ہے کہ یورپ میں عربی علوم صلیبی جنگوں کے ذریعہ نہیں پہنچے ۔ بلکہ اندلس ، سسلی اور اٹلی کے ذریعہ سے پہنچے۔ 1130 ء میں طلیطلہ کے رئیس الا ساقفہ ریموں(Remond) کی سر پرستی میں مترجمین کا ایک ادارہ قائم ہوا، جس نے مختلف فنون کی مشہور عربی کتابوں کا ترجمہ لاتینی زبان میں کیا۔ ان ترجموں سے یورپ کی آنکھوں کو ایک نئی دنیا نظر آنے لگی۔

چودہویں صدی تک اس ترجمہ کا سلسلہ جاری رہا۔ نہ صرف رازی ، ابن سینا اور ابن رشد وغیرہ کی کتابیں بلکہ جالینوس ، بقراط، افلاطون، ارسطو، اقلیدس ، بطلیموس وغیرہ کی کتابوں کا بھی عربی ترجموں سے لاتینی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ ڈاکٹر گلکرک نے اپنی تاریخ میں تین سو سے زیادہ عربی کتابوں کے لاتینی ترجموں کا ذکر کیا ہے۔ (تمدن عرب )

دوسرے مغربی علما نے مزید کھل کر اس تاریخی حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ مثلاً رابرٹ بریفالٹ (Robert Stephen Briffault, 1874-1948) نے لکھا ہے کہ یونانیوں نے سسٹم پیدا کیا۔انھوں نے تعمیم کی اور اصول مقرر کیے۔ مگر مفصل اور طویل مشاہدہ کی مشقت اور تجرباتی تحقیق یونانی مزاج کے لیے بالکل اجنبی تھی۔ جس چیز کو ہم سائنس کہتے ہیں وہ نئے تجرباتی اور مشاہداتی اور حسابی طریقوں کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور یہ چیز یورپ کو عربوں کے ذریعہ سے ملی۔ جدید سائنس اسلامی تہذیب کی سب سے زیادہ عظیم دین ہے۔ اس قسم کی تفصیلات دیتے ہوئے بریفالٹ نے کہا ہے کہ ہماری سائنس پر عربوں کا جو احسان ہے وہ صرف یہ نہیں ہے کہ انھوں نے ہم کو انقلابی نظریات کی بابت حیرت خیز دریافتیں عطا کیں۔ سائنس اس سے بھی زیادہ عرب کلچر کی احسان مند ہے ، وہ یہ کہ اس کے بغیر جدید سائنس کا وجود ہی نہ ہوتا :

The debt of our science to that of the Arabs does not consist in startling discoveries of revolutionary theories; science owes a great deal more to Arab culture, it owes its existence. (Briffault, The Making of Humanity)

جارج سارٹن (George Sarton) جو کہ علوم سائنس کا مشہور مورخ ہے ، اس نے لکھا ہے کہ قرون وسطیٰ کی سب سے زیادہ بنیادی اور سب سے زیادہ واضح کامیابی تجرباتی روح کو پیدا کرنا تھا۔اور یہ روح اصلاً مسلمانوں نے پیدا کی جو بارھویں صدی عیسوی تک جاری رہی۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom