چند مثالیں

قدیم زمانے میں مشرکانہ عقائد کے تحت چیزوں کو مقدس مان لیا گیا تھا۔ اس ذہن نے چیزوں کے بارے میں آزادانہ غوروفکر کا دروازہ بند کر رکھا تھا۔ توحید کے انقلاب نے تاریخ میں پہلی بار آزاد انہ غوروفکر کا ماحول پیدا کیا۔ ہر معاملہ میں بے روک ٹوک تحقیق اور مطالعہ کیا جانے لگا۔ اس طرح توحید کے انقلاب نے تاریخ میں پہلی بار باقاعدہ طور پر سائنسی غوروفکر کی بنیاد رکھی۔ ا س سے پہلے بھی اگرچہ انفرادی سطح پر بعض اشخاص نے سائنس کی تحقیق کی تھی مگر ماحول ساز گار نہ ہونے کی وجہ سے ان کو پذیرائی نہیں ملی۔ اور ان کا کام آگے نہ بڑھ سکا۔

عام طور پر دور بین کا موجد گلیلیو(وفات 1642 ء ) کو سمجھا جاتا ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ ابو اسحاق ابراہیم بن جندب (وفات767ء ) نے افلاک کا مطالعہ کیا۔ اس نے دو ر کی چیزوں کو دیکھنے کے لیے کچھ اصول اخذ کیے اور اس کے مطابق ایک دور بینی آلہ ایجاد کیا۔ گلیلیو نے اس ابتدائی دور بین کو مزید ترقی دی۔ یہ فن آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ وہ موجودہ زمانے کی الیکٹرانک دور بینوں تک جا پہنچا۔

جدید سائنس کی بنیاد تجربات پر ہے۔ مگر قدیم زمانہ میں مختلف قسم کے توہماتی عقائد تجربات کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ جابربن حیان (وفات 817ء ) نے تجربہ کی اہمیت کو سمجھا اور اس کو علمی مطالعہ میں استعمال کیا۔ اس کی تحریریں ترجمہ ہو کر یورپ میں پہنچیں۔ یہ ذہن ترقی کرتا رہا یہاں تک کہ وہ چیز وجود میں آئی جس کو موجودہ زمانے میں تجرباتی علم (experimental knowledge) کہا جاتا ہے۔

موجودہ زمانہ میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ زمین سورج کے گرد گول دائرہ میں نہیں گھومتی بلکہ بیضوی صورت کے مدار میں گھومتی ہے۔ سیاروں کی یہ حرکت آج کپلر کے تیسرے قانون (Kepler's third law) کے نام سے مشہور ہے۔ مگر اس کائناتی واقعہ کو ابتدائی طور پر جس نے دریافت کیا، وہ ابو عبد اللہ محمد بن جابر البنانی (وفات929 ء ) ہے۔ اس نے اپنے فلکیاتی مشاہدات کے ذریعہ ا س حقیقت کو معلوم کیا اور اس کے بارے میں کتاب لکھی۔ اس کی کتاب ترجمہ ہو کر یورپ پہنچی اور جدید تجرباتی سائنس کو ظہور میں لانے کا سبب بنی۔

ابو علی حسن بن الہیثم (وفات 1021ء) تاریخ میں پہلا شخص ہے، جس نے مادی اجسام میں جمود (inertia) کا تصور دیا۔ اس کی یہ دریافت ترجمہ ہو کر یورپ پہنچی۔ وہاں کے اہل علم نے اس کو پڑھا، اور اس پر مزید تحقیقات کی۔ یہاں تک کہ وہ چیز وجود میں آئی، جس کو مادی اجسام کی حرکت کے بارے میں نیوٹن کے پہلے قانون کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ دراصل ابن الہیثم ہی ہے، جس نے اولاً یہ دریافت کیا کہ روشنی ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کے لیے ایسا راستہ منتخب کرتی ہے، جس میں کم سے کم وقت لگے۔ یہی دریافت ہے جو موجودہ زمانہ میں فرما کے اصول (Fermat's principle) کے نام سے ساری دنیا میں مشہور ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom