تمہید
امریکی خلا باز آرم اسٹرانگ (Neil Armstrong, 1930-2012) پہلا انسان ہے جس نے چار روزہ خلائی سفر کے بعد 20 جولائی 1969 کو چاند پر اپنا قدم رکھا ، اور وہاں پہنچ کر یہ تاریخی الفا ظ کہے کہ ایک انسان کے لیے یہ ایک چھوٹا قدم ہے ، مگر انسانیت کے لیے وہ ایک عظیم چھلانگ ہے :
That's one small step for a man, one giant leap for mankind (EB-1/530)
آرم اسٹرانگ اور ان کے ساتھی ایڈون آلڈرن (Edwin Aldrin, b. 1930) اور مائیکل کولنس (Michael Collins, b. 1930)نے ایک مخصوص راکٹ اپالو (Apollo II) پر سفر کیا اور آخری مرحلے میں ایک چاند گاڑی (Eagle) کے ذریعے وہ چاند کی سطح پر اترے۔
یہ اپالو یا یہ چاند گاڑی کوئی جادو کا اڑن کھٹولہ نہ تھا۔ وہ محکم قانون فطرت کے تحت بنی ہوئی ایک سائنسی مشین تھی۔ اس نے قانون فطرت کو استعمال کر کے یہ پورا خلائی سفر طے کیا۔ یہ قانون ہماری دنیا میں لاکھو ں سال سے موجود تھا۔ مگر انسان اس سے پہلے کبھی یہ سوچ نہ سکا کہ وہ فطرت کے اس قانون کو جانے ،اور اس کو استعمال کر کے چاند تک پہنچنے کی کوشش کرے۔
فطری امکانات کے باوجود، چاند تک پہنچنے میں اس تاخیر کا سبب کیا تھا۔ یہ سبب شرک تھا ، یعنی مخلوق کو معبود سمجھ کر ان کی پرستش کرنا۔ قدیم زمانہ میں ساری دنیامیں شرک کا عقیدہ چھایا ہوا تھا۔ انسان ، دوسری چیزوں کی طرح ، چاند کو اپنا معبود سمجھتا تھا۔ روشن چاند کو دیکھ کر آدمی کے ذہن میں اس کے آگے جھکنے کا خیال پیدا ہوتا تھا ،نہ کہ اس کو فتح کرنے کا۔ چاند کو مقدس سمجھ لینا، اس میں رکاوٹ بن گیا کہ آدمی چاند کو مسخر کرنے کی بات سوچ سکے۔
ساتویں صدی عیسوی میں پہلی بار ایسا ہوا کہ اسلام کے ذریعے وہ انقلاب آیا، جس نے شرک کومغلوب کر کے توحید کو غالب فکر بنا دیا۔ یہ انقلاب اولاً عرب میں آیا۔ اس کے بعد وہ ایشیا اور افریقہ میں سفر کرتا ہوا یورپ پہنچا، اور پھر وہ اٹلانٹک کو پار کر کے امریکہ میں داخل ہو گیا۔
مسلم دنیا میں یہ انقلاب مذہب کے تحت آیا تھا ، مغربی دنیا نے اپنے حالات کے زیر اثر ، اس میں یہ فرق کیا کہ اس کو مذہب سے الگ کر کے ایک سیکولر علم کے طور پر ترقی دینا شروع کیا۔ اور پھر اس کو موجودہ انتہا تک پہنچایا۔ جس طرح نیشنلائزیشن (nationalization) مارکسزم کے فلسفیانہ نظام کا ایک معاشی جزء ہے ، اسی طرح جدید سائنس اسلامی انقلاب کا ایک جزئی حصہ ہے جس کو اس کے پورے مجموعے سے الگ کر لیا گیا ہے۔
چاند کے سفر کا ذکر یہاں بطور مثال کیا گیا ہے۔ یہی ان تمام علوم کا معاملہ ہے، جن کو موجودہ زمانے میں علوم فطرت (natural sciences) کہا جاتا ہے۔ یہ علوم قدیم زمانہ میں شرک یا بالفاظ دیگر مظاہر فطرت کو مقدس سمجھنے کی بنا پر ممنوعہ علوم بنے ہوئے تھے۔ توحید کے انقلاب نے فطرت کو تقدس کے مقام سے ہٹا کر ان کی تحقیق وتسخیر کا دروازہ کھول دیا۔
اس طرح تاریخِ انسانی میں فطرت کی آزادانہ تحقیق کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ یہ دور ہزار سالہ عمل کے بعد آخر کار جدید سائنس اور جدید ٹکنالوجی تک پہنچا۔ جدید سائنس تمام تر اسلامی انقلاب کی دَین ہے ، ابتداء ً براہ راست طور پر ، اور اس کے بعد بالواسطہ طور پر۔
اس حقیقت کا اعتراف کسی نہ کسی انداز سے عام طور پر کیا گیا ہے۔ موجودہ زمانے میں کثر ت سے ایسی کتابیں لکھی گئی ہیں، جن کا نام ہوتا ہے —’’ عربوں کی سائنسی ترقی ‘‘ یا ’’تہذیب میں مسلمانوں کا حصہ‘‘ :
Muslim contribution in progress of civilization
محققین نے عام طور پر اس بات کا اقرار کیا ہے کہ جدید صنعتی ترقی عربوں (مسلمانوں ) کے اثر سے ظہور میں آئی۔ اے ہمبوٹ (A. Humboldt) نے کہا ہے کہ یہ دراصل عرب ہیں جن کو صحیح معنی میں فزکس کا بانی سمجھا جانا چاہیے :
It is the Arabs who should be regarded as the real founders of physics (p.25).
فلپ ہٹی (Philip Khuri Hitti, 1886-1978) نے اپنی کتاب ، ہسٹری آف دی عربس (1970) میں لکھا ہے کہ قرون وسطی میں کسی بھی قوم نے انسانی ترقی میں اتنا حصہ ادا نہیں کیا جتنا عربوں نے اور عربی زبان بولنے والوں نے کیا:
No people in the Middle Ages contributed to human progress so much as did the Arabians and the Arabic-speaking peoples. (History of the Arabs, Macmillan, 1970, p. 4)
مورخین نے عام طور پر تسلیم کیا ہے کہ عربوں (مسلمانوں ) کے ذریعہ جو علوم یورپ میں پہنچے ، وہی بالآخر یورپ کی نشاۃ ثانیہ (صحیح تر لفظ میں نشاۃ اولیٰ ) پیدا کرنے کا سبب بنے۔ پروفیسر ہٹی نے لکھا ہے کہ 832ء میں بغداد میں بیت الحکمت قائم ہونے کے بعد عربوں نے جو ترجمے کیے اور جو کتابیں تیار کیں ، وہ لاتینی زبان میں ترجمہ ہو کر اسپین اور سسلی کے راستے سے یورپ پہنچیں، اور پھر وہ یورپ میں نشاۃ ثانیہ پیدا کرنے کا سبب بنیں :
This stream was re-diverted into Europe by the Arabs in Spain and Sicily, whence it helped create the Renaissance of Europe . (History of the Arabs, p. 307)
تاہم سوال یہ ہے کہ خود عربوں (مسلمانوں ) کے اندر یہ ذہن کیسے پیدا ہو ا۔ جب کہ وہ خود بھی پہلے اسی عام پسماندگی کی حالت میں پڑے ہوئے تھے ،جس میں ساری دنیا کے لوگ پڑے ہوئے تھے۔ اس کا جواب صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ توحید کا عقیدہ ان کے لیے اس ذہنی اور عملی انقلاب کا سبب بنا۔ دوسری قوموں کے پاس شرک تھا ، عربوں کے پاس (اسلام کے بعد ) توحید۔ اسی فرق نے دونوں کی تاریخ میں یہ فرق پیدا کر دیا کہ ایک تاریخ کا معمول بنا رہا، دوسرا تاریخ کا عامل بن گیا۔
زیر نظر کتاب کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایک مسلمہ تاریخی واقعہ ، جس کو لوگوں نے صرف ایک مسلم قوم کے خانہ میں لکھ رکھا ہے ، اس کو زیادہ صحیح طور پر اسلام کے خانے میں درج کیا جائے۔ یہ صرف ایک معلوم واقعے کی توجیہ ہے ، نہ کہ کسی نامعلوم واقعے کی خبر دینا۔
ایک مثال سے اس کی مزید وضاحت ہو سکتی ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ہندستان 1947 میں آزاد ہوا۔ ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ ہندستان کو گاندھی (Mohandas Karamchand Gandhi, 1869-1948) اور نہرو (Jawaharlal Nehru, 1889-1964)نے آزاد کرایا۔ مگر زیادہ گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ کہنا صحیح ہو گا کہ ہندستان کو جدید قومی اور جمہوری نظریات نے آزاد کرایا۔ موجودہ زمانے میں جمہوریت اور قومی آزادی کے اصولوں کی بنیاد پر جو عالمی فکری انقلاب آیا، اس نے وہ حالات پیدا کیے جس میں کوئی گاندھی یا کوئی نہرو اٹھے اور ملک کو آزادی کی طرف لے جانے میں کامیاب ہو سکے۔ اگر عالمی فکری انقلاب کا یہ ماحول موافقت نہ کر رہا ہوتا تو ہمارے لیڈروں کی تحریکِ آزادی بھی کامیابی سے ہم کنار نہ ہوتی۔
زیر ِبحث موضوع کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب مسلمانوں کے ذریعہ دنیا میں جدید سائنسی انقلاب کا آغاز ہوا۔ مگر خود اس آغاز کا سبب بھی یہ تھا کہ اسلام نے انھیں ایک نیا ذہن دیا۔ اس طرح سائنس کی تاریخ صرف ایک قوم کا کارنامہ نہیں رہتی بلکہ اس دین کا عطیہ قرار پاتی ہے، جو ابدی طور پر تمام انسانوں کی صحیح رہنمائی کے لیے خدا ئے ذوالجلال کی طرف سے اپنے بندوں کی طرف بھیجا گیا ہے۔
ہنری پرین (Henri Pirenne, 1862-1935) نے اس تاریخی حقیقت کا اعتراف ان لفظوں میں کیا ہے کہ اسلام نے کرہ ارض کی صورت بدل دی۔ تاریخ کا روایتی ڈھانچہ اکھاڑ پھینک دیا گیا:
Islam changed the face of the globe. The traditional order of history was overthrown. (Henri Pirenne: A History of Europe, London, 1939, p. 46)
زیر نظر کتاب اسلامی انقلاب کے اسی پہلو کا مختصر تعارف ہے۔ اس موضوع پر میں ایک جامع اور مفصل کتاب تیار کرنا چاہتا تھا۔ معلومات جمع کرنے کا کام کسی قدر سست رفتاری کے ساتھ جاری تھا۔ آخر کار مجھے احساس ہوا کہ میں اپنی موجودہ مصروفیات کے ساتھ مطلوبہ نوعیت کی زیادہ مفصل اور جامع کتاب شاید تیار نہ کر سکوں گا۔ اس لیے یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ جتنا کام ہو چکا ہے ، اس کو بلا تاخیر کتابی صورت میں شائع کر دیا جائے۔
اگر عمر اور حالات نے موقع دیا تو ان شا ء اللہ آئندہ اس میں مزید مباحث کا اضافہ کیا جا سکے گا ، اور اگر ایسا ممکن نہ ہوا تو یہ نقش اول ، کسی بعد کو آنے والے کے لیے نقش ثانی کی تیاری میں مدد گار ہو سکتا ہے۔
وحید الدین
16 اپریل 1989