علم کی طرف سفر
یونان یورپ کا ایک ملک ہے۔ قدیم زمانہ میں یہاں کئی اعلیٰ سائنسی ذہن پیدا ہوئے۔ اس سلسلہ میں ایک نام ارشمید س (Archimedes) کا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے ابتدائی قسم کی سادہ مشین مثلاً چرخی (Water screw) ایجاد کی۔ مگر عجیب بات ہے کہ یونان کے یہ سائنسی ذہن بجلی کی طرح وقتی طور پر چمکے ، اور پھر جلد ہی ختم ہو گئے۔ وہ یونان کو یا وسیع تر یورپ کو سائنس اور صنعت کے دور میں داخل نہ کر سکے۔ خودار شمیدس کا انجام یہ ہوا کہ اس کو ایک رومی سپاہی نے اس وقت قتل کر دیا، جب کہ وہ شہر کے باہر ریت کے اوپر ریاضی کا ایک سوال حل کر رہا تھا۔
قدیم یونانی علم اور جدید سائنسی یورپ کے درمیان نہایت طویل علمی وقفہ پایا جاتا ہے۔ ارشمیدس نے اپنی مشینی چرخی 260ق م میں ایجاد کی تھی ، اور جرمنی کے گوٹن برگ (J. Gutenberg) نے پہلا مشینی پریس 1450ء میں ایجاد کیا۔ دونوں کے درمیان ڈیڑھ ہزار سال سے زیادہ مدت کا فاصلہ ہے۔
ایسا کیوں ہو ا۔ کیا وجہ ہے کہ قدیم یونانی سائنس کا تسلسل یونان میں اور یورپ میں جاری نہ رہ سکا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی انقلاب سے پہلے وہ فضا موجود نہ تھی، جس میں علمی تحقیق کا کام آزادانہ طور پر جاری رہ سکے۔ اسلام نے توحید کی بنیاد پر جو انقلاب برپا کیا، اس کے بعد تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ اس میدان کی رکاوٹیں ختم ہو گئیں، اور وہ موافق فضا تیار ہوئی جس میں علمی تحقیق کا کام کسی روک ٹوک کے بغیر جاری رہ سکے۔
علمی ترقی ایک مسلسل عمل کا نام ہے۔ مگر یونانی علما کا کام، زمانی عدم موافقت کی بنا پر مسلسل عمل کی صورت میں آگے نہ بڑھ سکا۔ وہ وقتی چمک بن کر رہ گیا۔ اس کے بعد ساتویں صدی عیسوی میں جب اسلمای انقلاب نے توہماتی دور کو ختم کیا ، تو علمی ترقی کے عمل کے لیے موافق مواقع حاصل ہو گئے۔ ا ب سائنسی تحقیق ایک مسلسل عمل کی صورت میں جاری ہو گئی۔ یہاں تک کہ وہ موجودہ ترقی یافتہ دور تک پہنچی۔
ماحول کی اس عدم موافقت کی وجہ سے یونانی علما کا کام زیادہ تر ذہنی سوچ کے دائرے میں محدود رہا۔ وہ خارجی تجربات تک نہیں پہنچا۔ مثلاً ارسطو نے طبیعیات کے موضوع پر مضامین لکھے۔ مگر اس نے اپنی ساری زندگی میں کوئی ایک بھی عملی تجربہ نہیں کیا۔ یونانی علما کی سرگرمیاں منطق میں تو نظرآتی ہیں۔ مگر وہ تجرباتی سائنس میں بالکل دکھائی نہیں دیتیں۔ سائنس کا حقیقی آغاز اس وقت ہوتا ہے، جب کہ انسان کے اندر تفتیش کی روح (spirit of enquiry)آزادانہ طور پر پیدا ہو جائے۔ قدیم زمانہ میں یہ روح انفرادی طور پر اور وقتی طور پر کہیں کہیں ابھری۔ مگر وہ ، ماحول کی عدم موافقت کی وجہ سے ، بڑے پیمانہ پر پید انہ ہو سکی۔
آزادانہ تحقیق کے لیے موافقت کا یہ ماحول صرف اسلام کے انقلابِ توحید کے بعد ظہور میں آیا۔ اسلامی انقلاب نے اچانک پورے ماحول کو بدل دیا۔ اور وہ سازگار فضا پید اکر دی جس میں آزادانہ طور پر فطرت کی تحقیق کا کام ہو سکے۔ اس سائنسی فکر کا آغاز پہلے مکہ میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ مدینہ پہنچتا ہے۔ پھر وہ دمشق کا سفر کرتا ہے۔ پھر وہ آگے بڑھ کر بغداد کو اپنا مرکز بناتا ہے۔ اس کے بعد وہ اسپین اور سسلی اور اٹلی ہوتا ہوا پورے یورپ میں پھیل جاتا ہے۔ وہ پھیلتا ہی رہتا ہے یہاں تک کہ وہ پورے عالمی ذہن کو بدل دیتا ہے۔
علم کا یہ ارتقائی سفر اسلامی انقلاب سے پہلے ممکن نہ ہو سکا۔ اس سے پہلے سائنسی فکر محض انفرادی یا مقامی سطح پر پید اہوا اور ماحول کے عدم موافقت کی وجہ سے بہت جلد ختم ہو گیا اسلام نے پہلی بار سائنسی ترقی کے لیے موافق ماحول عطا کیا۔