علم تاریخ
موجودہ زمانے میں تاریخی مطالعہ کا طریقہ یہ ہے کہ قوم (nation) کو اکائی (unit) قرار دے کر تاریخ کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ آرنلڈ ٹوائن بی نے اس میں تبدیلی کر کے یہ کیا ہے کہ تہذیب (civilization) کو تاریخی مطالعہ کے لیے اکائی قرار دینے کی کوشش کی ہے (EB-10/76)۔
تاہم دونوں نظریات کا مشترک خلاصہ ایک ہے۔ دونوں کا مدعا یہ ہے کہ تاریخ کو کسی فرد واحد کے تابع نہ کیا جائے ، بلکہ پورے انسانی گروہ کی تمام سرگرمیوں کو تاریخ کے مطالعہ کا موضوع بنایا جائے۔ علم تاریخ میں یہ ایک زبردست تبدیلی ہے۔ جو صرف پچھلے چند سو سال کے اندر وجود میں آئی ہے۔ موجودہ زمانے کی تاریخ کو اگر انسان نامہ کہا جائے تو قدیم زمانہ کی تاریخ صرف شاہ نامہ ہوتی تھی۔ قدیم زمانے میں بادشاہوں کی تاریخ کا نام تاریخ ہوتا تھا۔ یہ صرف موجودہ زمانے کی بات ہے کہ تاریخ کو کسی عہد کے علمی ، اقتصادی ، سماجی ، سیاسی اور تمدنی احوال کے مطالعہ کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ گویا قدیم تاریخ انسانیتِ عامہ کی تصغیر تھی۔ اس میں عام انسان قابلِ تذکرہ نہیں تھا۔ تذکرہ کے قابل صرف ایک شخص تھا ، اور وہ وہی تھا، جس کے سر پر بادشاہت کا تاج چمک رہا ہو۔
تاریخ کو شاہ نامہ بنانے کا یہ مزاج اتنا زیادہ بڑھا ہوا تھا کہ غیر بادشاہوں کے واقعات سرے سے قابل ذکر ہی نہیں سمجھے جاتے تھے ، خواہ بذات خود وہ کتنے ہی زیادہ بڑے کیوں نہ ہو ں۔ اس معاملے کی ایک عجیب مثال وہ ہے، جو پیغمبروں سے متعلق ہے۔ انسانی تاریخ کا شاید سب سے زیادہ عجیب واقعہ یہ ہے کہ تاریخ میں وہی بات لکھنے سے رہ گئی، جو سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والی تھی۔ یہ ان مقدس ہستیوں کے حالات ہیں، جن کو پیغمبر کہا جاتا ہے۔ انسانیت کی مدون تاریخ میں بادشاہوں کے مفصل تذکرے ہیں۔ ان کے محلوں سے لے کر ان کے فوجی سرداروں تک کا حال درج ہے۔ مگر خدا کے پیغمبروں نے اپنے زمانے میں جو کام کیا ، اس کا مدوّن انسانی تاریخ میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔
اگر ہندستان کی آزادی کی ایسی تاریخ لکھی جائے جس میں مہاتما گاندھی کا نام نہ ہو۔ اگر اشتراکی روس کی ایسی تاریخ لکھی جائے ،جو لینن کے ذکر سے خالی ہو تو ایسی تاریخ لوگوں کو بہت عجیب معلوم ہو گی۔ مگر اسی قسم کا عجیب تر واقعہ یہ ہے کہ انسانیت کی مدون تاریخ ان روحانی ہستیوں کے تذکرہ سے مکمل طور پر خالی ہے جن کو پیغمبر کہا جاتا ہے۔ اس میں صرف آخری رسول کا استثناء ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے خود اس تاریخ کو بدل دیا جس کے نتیجہ میں ماضی میں بار بار یہ المیہ پیش آرہا تھا۔
ماضی میں یہ عظیم تاریخی فروگذاشت اس لیے ہوئی کہ قدیم مورخین کے نزدیک صرف ’’بادشاہ‘‘ اور اس سے تعلق رکھنے والے معاملات قابل تذکرہ تھے ، اس کے سوا دوسری چیزیں ان کے نزدیک سرے سے اس قابل ہی نہ تھیں کہ ان کا تذکرہ کیا جائے۔
غیر بادشاہوں کا حال یہ تھا کہ ان کے حقیقی واقعات بھی قابل تذکرہ نہیں سمجھے جاتے تھے۔ مگر بادشاہ سے تعلق رکھنے والے فرضی افسانے بھی اس طرح اہتمام کے ساتھ لکھے جاتے تھے گویا کہ وہ بہت بڑی حقیقت ہوں۔ مثال کے طور پر مصر کا ساحلی شہر اسکندر یہ سکندر اعظم نے 332 ق م میں آباد کیا۔ اسی کے نام پر اس کا نام اسکندر یہ (Alexandria) ہے۔
سکندر کے اس ’’ شاہی کا رنامہ ‘‘ کے بارے میں اس وقت کے مورخین نے جو عجیب وغریب کہانیاں لکھی ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ سکندر نے جب سمندر کے ساحل پر اس شہر کو بنانا شروع کیا تو بحری شیاطین نے رکاوٹیں ڈالیں۔ اس کے بعد سکندر نے لکڑی اور شیشہ کا ایک صندوق تیار کرایا۔ اس کے ذریعہ غوطہ لگا کر وہ سمندر کی تہ میں گیا۔ وہاں اس نے سمندری شیاطین کو دیکھ کر ان کی تصویریں بنائیں۔ پھر ان تصویروں کے مطابق ان کے معدنی مجسمے تیار کیے۔ اور ان مجسموں کو اسکندر یہ کی بنیاد میں گاڑ دیا۔ اس کے بعد جب سمندری شیا طین وہاں آئے اور دیکھا کہ ان کی جنس کے لوگوں کو مار کر بنیاد میں دفن کر دیا گیا ہے تو وہ ڈر کر بھاگ گئے۔
اسلام سے پہلے پورے قدیم دور میں یہی تمام دنیا کا حال تھا۔ معلوم انسانی تاریخ میں عرب مؤرخ ابن خلدون (1332-1406ء) پہلا شخص ہے، جس نے تاریخ نویسی کے فن کو بدلا اور تاریخ کو شاہ نامہ کے دور سے نکال کر انسان نامہ کے دور میں داخل کیا۔ اس نے تاریخ کو علم الملوک کے بجائے علم الا جتماع بنایا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ علم جس کو موجودہ زمانے میں علم اجتماع (sociology) کہا جاتا ہے ، وہ ابن خلدون ہی کی دین ہے۔ ابن خلدون نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ایک نئے علم ( علم العمران ) کا بانی ہے ، اور یہ بات بلا اختلاف درست ہے۔
یہ دراصل ابن خلدون ہے جس نے یورپ کو جدید فن تاریخ دیا۔ اور خود ابن خلدون کو جس سے یہ چیز ملی وہ اسلام تھا۔ اسلامی انقلاب نے ابن خلدون کو پیدا کیا اور ابن خلدون نے جدید فن تاریخ کو۔ ابن خلدون نے نظریۂ تاریخ میں جو تبدیلی کی ، اس کا اعتراف بیسویں صدی کے مشہور انگریز مورخ آرنلڈ ٹائن بی نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ ابن خلدون نے ایک فلسفۂ تاریخ پید اکیا۔ یہ بلا شبہ اپنی نوعیت کا سب سے بڑا علمی کام ہے جو کبھی بھی کسی ذہن نے کسی زمانہ میں یا کسی مقام پر تخلیق کیا ہو۔
A philosophy of history which is undoubtedly the greatest work of its kind that has ever yet been created by any mind in any time or place . (EB-9/148)
اسی طرح رابرٹ فلنٹ (Robert Flint) نے ان غیر معمولی الفاظ میں اس کی عظمت کا اعتراف کیا ہے کہ تاریخ کے نظریہ ساز کی حیثیت سے وہ کسی بھی دور یا کسی بھی ملک میں اپنا ثانی نہیں رکھتا، یہاں تک کہ اس کے تین سو سال بعد وائکو (Vico) پیدا ہوا۔ افلاطون ، ارسطو ، آگسٹین اس کے ہم رتبہ نہ تھے :
As a theorist on history he had no equal in any age or country until Vico appeared, more than three hundred years later. Plato, Aristotle and Augustine were not his peers . (EB-9/148)
پروفیسر ہٹی نے لکھا ہے کہ ابن خلدون کی شہرت اس کے مقدمہ کی وجہ سے ہے۔ اپنی اس کتاب میں اس نے پہلی بار تاریخی حالات کا ایک ایسا نظریہ پیش کیا جس میں آب وہوا اور جغرافیہ کے طبیعی حقائق کو علم تاریخ میں قرار واقعی جگہ دی گئی اور اسی کے ساتھ روحانی اور اخلاقی طاقتوں کو بھی جو تاریخ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ قومی عروج وزوال کے قوانین کو وضع کرنے والے کی حیثیت سے ابن خلدون کو اس کا دریافت کنندہ کہا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ اس نے مقدمہ میں خود بھی اپنے آپ کو یہی حیثیت دی ہے۔ اس نے تاریخ کے واقعی امکانات اور اس کی واقعی نوعیت کو دریافت کیا۔ کم از کم علم اجتماع کا وہ حقیقی بانی ہے۔ کوئی عرب مصنف ، حتی کہ کوئی یورپی مصنف ایسا نہیں جس نے کبھی بھی تاریخ کو اس قدر جامع اور فلسفیانہ انداز سے دیکھا ہو۔ ناقدین کی متفقہ رائے کے مطابق ، ابن خلدون سب سے بڑا تاریخی فلسفی تھا جو اسلام نے پیدا کیا۔ بلکہ وہ تمام زمانوں میں پیدا ہونے والے لوگوں میں سب سے بڑے مورخ فلسفی کی حیثیت رکھتا ہے ـ:
P.K. Hitti, History of the Arabs, London 1970, p. 568
ابن خلدون نے اپنے مقدمہ کے پہلے حصے میں عام اجتماعیات کو بیان کیا ہے۔ دوسرے اور تیسرے حصے میںسیاسی اجتماعیات کا بیان ہے۔ چوتھے حصے میں شہری زندگی کی اجتماعیات کا تذکرہ ہے۔ پانچویں حصے میں اقتصادی اجتماعیات کو بیان کیا گیا ہے۔ چھٹے حصے میں علم الا جتماع کا بیان ہے۔ اس کا ہر باب علمی اعتبار سے نہایت اعلیٰ ہے۔ اس طرح وہ ایک ایسے علم تاریخ کی بنیاد رکھتا ہے جو صرف بادشاہوں کے احوال پر مبنی نہ ہو ، بلکہ وسیع تر معنوں میں پوری قوم کی اقتصادیات ، سیاسیات ، تعلیم ، مذہب ، اخلاق اور تمدن پر مبنی ہو۔
علم تاریخ کے محققین نے عام طورپر تسلیم کیا ہے کہ عبد الرحمن ابن خلدون کے ظہور تک فن تاریخ غیر ترقی یافتہ حالت میں پڑا ہوا تھا۔ ابن خلدون پہلا شخص ہے جس نے جدید فن تاریخ کا آغاز کیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ خود ابن خلدون کے لیے یہ کیسے ممکن ہوا کہ وہ ایک ایسی چیز کو پائے جس کو اس سے پہلے کا کوئی شخص نہ پا سکا تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ دوسرے مورخین اسلامی انقلاب سے پہلے پیدا ہوئے، اور ابن خلدون اسلامی انقلاب کے بعد پیدا ہوا۔ ابن خلدون دراصل اسلامی انقلاب کی پیداوار تھا ، اور یہی وہ چیز ہے جس نے ابن خلدون کو ابن خلدو ن بنایا۔
فن تاریخ کی ترقی میں دوبارہ وہی چیز حائل تھی، جس کو مذہبی اصطلاح میں شرک کہا جاتا ہے۔ اسلام سے پہلے کا پورا زمانہ خدائی بادشاہتوں کا زمانہ ہے۔ کچھ بادشاہ سیدھے سیدھے خدا ہونے کا دعویٰ کرتے تھے، اور لوگوں سے اپنی پرستش کراتے تھے۔ کچھ بادشاہ اپنے آپ کو خدا کی تجسیم یا اس کا نائب قرار دے کر عوام کے اوپر یہ عقیدہ بٹھائے ہوئے تھے کہ ان کو اپنی رعایت پر مطلق حکمرانی کا اختیار حاصل ہے۔ کچھ بادشاہ لفظی طور پر تو خدائی کا دعویٰ نہیں کرتے تھے ، مگر عملاً ان کی مملکت میں وہی فضا تھی جو دوسرے ملکوں میں پائی جاتی تھی۔ (EB-5/816)
اسلام نے اس صورت حال کو بدلا۔ اسلام نے توحید کی بنیاد پر وہ انقلاب برپا کیا، جس کے بعد بادشاہ اور غیر بادشاہ میں کوئی فرق نہ رہا۔ تمام انسان یکساں طور پر ایک آدم اور حوا کی اولاد قرار پائے۔ مساوات انسانی کے اس عظیم انقلاب کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ کوئی ابن خلدون پیدا ہو جو ’’بادشاہ ‘‘ کو مرکز بنا کر سوچنے کے بجائے انسانیت عامہ کو مرکز بنا کر سوچے اور پھر نئے علم تاریخ کی بنیاد رکھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے صاجزادے ابراہیم مدینہ میں پیدا ہوئے۔ ڈیڑھ سال کی عمر میں شوال 10ھ (632 ء ) میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اتفاق سے اسی دن سورج گرہن پڑا۔ قدیم زمانے میں جن توہمات کا رواج تھا ، ان میں سے ایک یہ تھا کہ جب بادشاہ یا کسی بڑے آدمی کی موت ہوتی ہے تو سورج گرہن یا چاند گرہن پڑتا ہے۔ اس طرح گویا آسمان بڑے انسانوں کی موت پرغم مناتا ہے۔ پیغمبر اسلام کی حیثیت اس وقت بادشاہ عرب کی تھی۔ چنانچہ مدینہ کے کچھ مسلمانوں نے قدیم تصور کے تحت کہا کہ یہ سورج گرہن ابراہیم کی وفات کی وجہ سے ہوا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے فوراً اس کی تردید کی۔ اس سلسلے میں مختلف روایات حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ ایک روایت یہ ہے : عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ خَرَجَ يَوْمًا مُسْتَعْجِلًا إِلَى الْمَسْجِدِ وَقَدْ انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَصَلَّى حَتَّى انْجَلَتْ، ثُمَّ قَالَ:إِنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ كَانُوا يَقُولُونَ:إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْخَسِفَانِ إِلَّا لِمَوْتِ عَظِيمٍ مِنْ عُظَمَاءِ أَهْلِ الْأَرْضِ، وَإِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْخَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا خَلِيقَتَانِ مِنْ خَلْقِهِ، يُحْدِثُ اللهُ فِي خَلْقِهِ مَا يَشَاءُ، فَأَيُّهُمَا انْخَسَفَ فَصَلُّوا حَتَّى يَنْجَلِيَ أَوْ يُحْدِثَ اللهُ أَمْرًا (سنن النسائی، حدیث نمبر 1490)۔یعنی نعمان بن بشیر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم ایک روز نکل کر تیزی سے مسجد کی طرف آئے۔ اس وقت سورج گرہن تھا۔ آپ نے نماز پڑھی یہاں تک کہ گرہن ختم ہو گیا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جاہلیت کے لوگ کہا کرتے تھے کہ سورج اور چاند میں گرہن اس وقت لگتا ہے جب کہ زمین کے بڑوں میں سے کسی بڑے کے موت واقع ہو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ سورج اور چاند میں کسی شخص کی موت یا زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ یہ دونوں اللہ کی مخلوقات میں سے دو مخلوق ہیں۔ اللہ اپنی مخلوقات میں جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ پس جب دونوں میں سے کسی میں گرہن لگے تو تم لوگ نماز پڑھو یہاں تک کہ وہ ختم ہو جائے یا اللہ کوئی بات ظاہر فرمائے۔
قدیم زمانے کے حکمراں عوام کے ان توہماتی خیالات کی سرپرستی کرتے تھے تاکہ لوگوں کے اوپر ان کی عظمت چھائی رہے۔ معلوم تاریخ میں پیغمبر اسلام پہلے حکمراں ہیں، جنھو ں نے ان توہماتی عقائد کی تردید کی، اور اس کو بے بنیاد قرار دیا۔ اس طرح آپ نے انسان کو ایک نیا ذہن دیا۔ آپ نے ایک انسان اور دوسرے انسان کے فرق کو فکری اور علمی طور پر ختم کر دیا۔ آپ نے ان مفروضات وتوہمات کو بے بنیاد قرار دے دیا، جن کے ذریعہ اس قسم کے خیالات لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہو گئے تھے۔
جب پورے عرب پر اسلام کا غلبہ ہو گیا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخر عمر میں اپنے تقریباً سو ا لاکھ اصحاب کے ساتھ حج ادا فرمایا۔ اس حج میں آپ نے عرفات کے میدان میں وہ تاریخی خطبہ دیا جس کو خطبہ حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔
یہ خطبہ گویا عرب کے حکمراں کی حیثیت سے دستور انسانی کا عام اعلان تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اے لوگو ، سن لو ، تمام لوگ ایک مرد اور عورت سے پیدا کیے گئے ہیں۔ ان میں جو مختلف قسم کا ظاہری فرق ہے ، وہ صرف پہچان اور تعارف کے لیے ہے۔ تم میں سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ با عزت وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے۔ کسی عربی کو کسی عجمی کے اوپر فضیلت نہیں اور کسی عجمی کو کسی عربی کے اوپر فضیلت نہیں۔ کسی کالے کو کسی گورے پر فضیلت نہیں اور کسی گورے کو کسی کالے پر فضیلت نہیں۔ فضیلت کی چیز صرف تقویٰ ہے (مسند احمد، حدیث نمبر 23489)۔
پھر آپ نے فرمایا کہ سن لو ، جاہلیت کی ہر بات اور ہر معاملہ میرے قدموں کے نیچے روند دیا گیا (أَلا كل شئ من أَمر الْجَاهِلِيَّة تَحت قدمي مَوْضُوع) السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، جلد 4، صفحہ 340۔ قدیم تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ وقت کے ایک حکمراں نے انسانوں کے درمیان ہر قسم کے اونچ نیچ اور ہر قسم کے جھوٹے امتیاز کو عملاً ختم کر دیا۔
اس کے بعد انسانی دنیا میں ایک نئی تہذیب پید اہوئی جس میں تمام انسان برابر کی حیثیت رکھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو لوگ اسلامی دنیا کے حکمراں بنے۔ وہ اگرچہ قدیم آباد دنیا کے بہت بڑے حصہ کے حکمراں تھے ، مگر مہاتما گاندھی کے الفاظ میں ، وہ اگرچہ ایک وسیع سلطنت کے مالک تھے ، مگر لوگوں کے درمیان وہ فقیروں کی طرح رہتے تھے :
Though they (Abu Bakr and Umar) were masters of vast empire, yet they lived the life of paupers.
یہ انقلاب اتنا طاقتور تھا کہ بعد کے دور میں جب کہ حکومت کے ادارے میں بگاڑ آ گیا ،اور ’’خلیفہ ‘‘ کے بجائے ’’ سلطان ‘‘ ہونے لگے ، تب بھی اسلامی تہذیب کے دباؤ کے تحت یہ حال تھا کہ کوئی سلطان قدیم طرز کا بادشاہ بن کر نہیں رہ سکتا تھا۔ اس سلسلے میں تاریخ اسلام میں بے شمار واقعات موجود ہیں۔ یہاں ہم صرف ایک واقعہ نقل کرتے ہیں۔
سلطان عبد الرحمن الثانی (176-238ھ ) مسلم اسپین کا ایک طاقت ور حکمراں تھا۔ اس نے ’’الزہرا ء ‘‘ کے نام سے اتنا بڑا محل بنایا کہ لفظ محل اس کے لیے کم معلوم ہونے لگا۔ چنانچہ اس محل کو قصر الزہراء کے بجائے مدینۃ الزہرا ء کہا جانے لگا۔
سلطان عبدالرحمن ثانی کا واقعہ ہے۔ ایک سال اس نے رمضان کے مہینہ میں ایک روز ہ قضا کر دیا۔ شرعی عذر کے بغیر اس نے ایک روزہ نہیں رکھا۔ تاہم بادشاہ ہونے کے باوجود اس کی یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ اپنے آپ کو قانون سے برتر سمجھ لے۔ چنانچہ اس نے قرطبہ کے علما کو دربار میں جمع کیا، اور ان کے سامنے اپنا واقعہ بیان کر کے عام آدمی کی طرح ان سے فتویٰ پوچھا۔
علامہ مقری نے لکھا ہے کہ علما کی مجلس میں امام یحیٰ بن یحیٰ بھی موجود تھے۔ اما م یحیٰ نے معاملہ کو سن کر فتویٰ دیا کہ بادشاہ اپنی اس غلطی پر بطور کفارہ متواتر ساٹھ دن تک روزے رکھے۔ جب وہ فتویٰ دے کر محل سے باہر نکلے تو ایک عالم نے کہا کہ حضرت ، شریعت میں ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم بھی تو موجود ہے۔ پھر آپ نے بادشاہ کو اتنا سخت فتویٰ کیوں دیا۔ آپ یہ فتویٰ بھی تو دے سکتے تھے کہ بادشاہ ایک روزہ کے بدلے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے۔ امام یحیٰ نے کہا کہ بادشاہوں کے لیے ساٹھ آدمی کو کھانا کھلانا کوئی سزا نہیں ( نفح الطیب ،جلد2، صفحہ10-11)۔ چنانچہ تاریخ اندلس بتاتی ہے کہ سلطان عبد الرحمن (الثانی) بن الحكم نے امام یحیٰ کے فتویٰ کو مانتے ہوئے پے درپے ساٹھ روزے رکھے اور کسی قسم کا کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ حتی کہ امام یحیٰ کو ان کے مذہبی عہدہ سے معزول بھی نہیں کیا۔
یہ اس انقلاب کا اثر تھا جو اسلام نے پیدا کیا۔ اس انقلاب نے بادشاہ اور رعایا کا فرق ختم کر دیا تھا۔ اس انقلاب نے انسانی مساوات کا ایک ماحول بنا دیا تھا کہ کوئی شخص اپنے آپ کو دوسروں سے برتر نہیں سمجھ سکتا تھا۔ کسی بادشاہ کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ اپنے کو عام انسانوں سے ممتاز قرار دے سکے۔ اور اپنے لیے قانون کی پابندی کی ضرورت نہ سمجھے۔
حالانکہ اسلامی انقلاب سے پہلے یہ ایک تسلیم شدہ بات سمجھی جاتی تھی کہ بادشاہ عام انسانوں سے بلند تر حیثیت رکھتا ہے۔ مثلاً پیغمبر اسلام کا ہم عصر رومی بادشاہ ہر قل (Heraclius) اگرچہ اپنے آپ کو مسیحی کہتا تھا، مگر اس نے اپنی بھانجی سے نکاح کر لیا جو مسیحی شریعت کے خلاف تھا :
He had married his niece, Matrina, thus offending the religious scruples of many of his subjects, who viewed his second marriage as incestuous. (EB-8/782)
لوگوں کو معلوم تھا کہ یہ ایک حرام ازدواجی تعلق ہے ، مگر اس کے باوجود تمام لوگوں نے خاموشی اختیار کر لی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہر قل ’’بادشاہ ‘‘ تھا ، اور بادشاہ کو حق تھا کہ وہ جو چاہے کرے ، عام انسانی معیار سے اس کو نا پا نہیں جا سکتا۔
پچھلے زمانے میں مختلف قسم کے توہماتی عقائد کے تحت بادشاہ کی عظمت کا غیر معمولی تصور لوگوں کے ذہنوں پر چھاگیا۔ وہ بادشاہ کو اپنے سے بلند تر کوئی مخلوق سمجھنے لگے۔ خود بادشاہ بھی مخصوص رسوم وآداب کے ذریعہ اس ذہن کی مکمل تصدیق کرتے تھے۔ ان حالات میں بادشاہ کو اپنی مملکت میں وہی مقام عظمت حاصل ہو گیا، جو وسیع تر کائنات میں خدا کے لیے سمجھا جاتا ہے۔ قدرتی طور پر تاریخ نویسی کافن اس سے متاثر ہوا اور تاریخ عملاً بادشاہوں کے تذکرے کا نام ہو کر رہ گئی۔
عرب میں اور دوسرے ملکوں میں جب اسلامی انقلاب آیا تو اس نے جس طرح سورج چاند کو خدائی منصب سے ہٹایا اسی طرح بادشاہوں کو بھی غیر معمولی عظمت کے مقام سے ہٹا دیا گیا۔ اب بادشاہ بھی اسی طرح ایک انسان تھا ، جس طرح عام لوگ ایک انسان تھے۔
اسلامی انقلاب کے اثرات ایشیا اور افریقہ اور یورپ کے بیشتر آباد دنیا میں پہنچے۔ اس سے عالمی سطح پر ایک نیا ماحول پیدا ہوا۔ لوگوں کے اندر ایک نئی سوچ ابھری۔ قدیم شاہ مرکزی (king-centred) ذہن ختم ہو گیا ، اور اس کی جگہ انسان مرکزی (man-centred)ذہن پیدا ہوا۔ علم تاریخ کے اعتبار سے اس ذہن کا پہلا نمایاں اظہار عبد الرحمن ابن خلدون (1332-1406ء) تھا۔ انہوں نے العبر کے نام سے عربوں کی تاریخ لکھی تھی ، جس کامفصل نام ہے—
’’كتاب العبر وديوان المبتدا والخبر في ايام العرب والعجم والبربر ومن عاصرهم من ذوي السلطان الاكبر ‘‘
موجودہ دور میں یہ کتاب تاریخ ابن خلدون کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔لیکن ابن خلدون کا اصل کارنامہ اس کا فن تاریخ پر وہ مفصل مقدمہ ہے، جو اس نے تاریخ ابن خلدون مقدمہ کے طور پر لکھا ہے۔وہ مقدمہ اصل کتاب سے زیادہ قیمتی سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ الگ سے وہ ’’مقدمہ ابن خلدون ‘‘ کے نام سے بار بار مختلف زبانوں میں شائع ہو چکا ہے۔
مورخ المقر یزی ابن خلدون کا شاگرد تھا۔ ابن خلدون نے 15 ویں صدی عیسوی میں مصر کے اہل علم پر اثر ڈالا۔ اس کے بعد ووسرے مسلم ممالک میں اس کا تاریخی طرز فکر پھیلا۔ 1860 اور 1870 کے درمیان اس کے مقدمہ کا مکمل ترجمہ فرانسیسی زبان میں شائع ہوا۔ اس طرح ابن خلدون کے تاریخی افکار یورپ میں پھیلے۔ یہاں اس کے خیالات کو زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ آخر کار سترہویں صدی میں وائکو (Giambattista Vico) اور دوسرے مغربی مورخین پیدا ہوئے۔ انھوں نے اس کام کو مزید آگے بڑھایا۔ یہاں تک کہ وہ چیز وجود میں آئی جس کو جدید علم تاریخ کہا جاتا ہے۔