تحقیق کی آزادی

بیرون کا ر اڈی واکس (Baron Carra de Vaux, 1867-1953) کی مشہور کتاب اسلام کا ورثہ (The Legacy of Islam)  1931 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا مصنف اگرچہ عربوں کے کارنامے کا اعتراف کرتا ہے۔ مگر اس کے نزدیک ان کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ وہ یونانیوں کے شاگرد (Pupils of the Greeks)  تھے۔ برٹر ینڈرسل نے اپنی کتاب ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی میں عربوں کو صرف ناقل (Transmitter) کا درجہ دیا ہے۔ جنھوں نے یونان کے علوم کو لے کر اسے بذریعہ تراجم یورپ کی طرف منتقل کر دیا۔

مگر علمی اور تاریخی اعتبار سے یہ بات درست نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ عربوں نے یونانی علوم کو پڑھا، اور ان سے فائدہ اٹھایا۔ مگر اس کے بعد جو چیز انھوں نے یورپ کی طرف منتقل کیا ،وہ اس سے بہت زیادہ تھی، جو انھیں یونان سے ملی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یونان کے پاس وہ چیز موجود ہی نہ تھی، جو عربوں کے ذریعہ یورپ کو پہنچی، اور جو یورپ میں نشاۃ ثانیہ پیدا کرنے کا سبب بنی۔ اگر فی الواقع یونان کے پاس وہ چیز موجودہوتی تو وہ بہت پہلے یورپ کو مل چکی ہوتی۔ ایسی حالت میں یورپ کو اپنی حیات نو کے لیے ایک ہزار سال کا انتظار نہ کرنا پڑتا۔

یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ قدیم یونان نے جو کچھ ترقی کی تھی ، وہ آرٹ اور فلسفہ میں کی تھی۔ سائنس کے میدان میں ان کی ترقی اتنی کم ہے کہ وہ کسی شمار میں نہیں آتی۔ اس معاملہ میں واحد قابل ذکر استثنا ارشمید س (Archimedes) کا ہے۔ جس کو 212 ق م میں ایک رومی سپاہی نے عین اس وقت قتل کر دیا، جب کہ وہ شہر کے باہر ریت پر جیومیٹری کے سوالات حل کر رہا تھا۔

J. M. Roberts, History of the World, p. 238

حقیقت یہ ہے کہ سائنسی غوروفکر اور سائنسی ترقی کے لیے ذہنی آزادی کا ماحول انتہائی ضروری ہے ، اور یہ ماحول ، قدیم زمانے کے دوسرے ملکوں کی طرح ،یونان میں بھی موجود نہ تھا۔ سقراط کو اس جرم میں زہر کا پیالہ پینا پڑا کہ وہ ایتھنز کے نوجوانوںمیں آزاد انہ غوروفکر کا مزاج بنا رہا ہے۔ پلو ٹارک کے بیان کے مطابق، اسپارٹا کے لوگ صرف عملی ضرورتوں کے لیے لکھنا اور پڑھنا سیکھتے تھے۔

ان کے یہاں دوسری تمام کتابوں اور اہل علم پر پابندی لگی ہوئی تھی۔ ایتھنز میں آرٹ اور فلسفہ کو ترقی حاصل ہوئی۔ مگر بہت سے آرٹسٹ اور فلسفی جلا وطن کر دئے گئے ، قید خانہ میں ڈال دئے گئے ، پھانسی پر چڑھا دئے گئے ، یا وہ خوف سے بھاگ گئے۔ ان میں اسکائی لس، ایوریفائڈس ، فدیا س ، سقراط اور ارسطو جیسے لوگ بھی شامل تھے۔

یونان کے اسکائی لس (Aeschylas) کا قتل جس بنیاد پر کیا گیا، وہ مزید اس بات کا ثبوت ہے کہ قدیم یونان میں سائنسی ترقی کا ماحول موجود نہ تھا۔ اس کو اس لیے قتل کیا گیا کہ اس نے الیوسی نین رازوں (Eleusinian Mysteries) کو ظاہر کر دیا تھا۔ یہ ’’ راز‘‘ ان بے شمار پر عجوبہ کہانیوں میں سے ہے، جن کا کوئی وجود نہیں۔ مگر وہ یونانی فکرو خیال کا لازمی حصہ بنے ہوئے تھے (EB-3/1084)۔

جدید سائنسی دور سے پہلے سائنس کے معاملہ میں یورپ کا کیا حال تھا ، اس کی ایک مثال پوپ سلوسٹر (Pope Sylvester II) کا قصہ ہے ،جو عام طور پر گربرٹ کے نام سے مشہور ہے۔ وہ 945ء میں فرانس میں پیدا ہوا، اور 1003ء میں اس کی وفات ہوئی۔ وہ یونانی اور لاتینی دونوں زبانیں بخوبی جانتا تھا، اور نہایت قابل آدمی تھا۔

اس نے اسپین کا سفر کیا اور وہاں بار سلونہ (Barcelona) میں تین سال تک رہا۔ اس نے عربوں کے علوم سیکھے، اور ان سے بہت متاثر ہوا۔ وہ اسپین سے واپس ہوا تو اس کے ساتھ کئی عرب کتابوں کے ترجمے تھے۔ وہ ایک اصطرلاب (astrolabe)بھی اسپین سے لایا تھا۔ اس نے عربوں کے علوم منطق ، ریاضی اور فلکیات ،وغیرہ کی تعلیم شروع کی۔ مگر اس کو سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ مسیحی حضرات نے کہا کہ یہ اسپین سے جادو سیکھ کر آیا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اس پر شیطان مسلط ہو گیا ہے۔ وہ اسی قسم کے سخت حالات میں رہا ، یہاں تک کہ 12 مئی 1003ء کو روم میں اس کا انتقال ہو گیا۔ (EB-17/899)

اسلام سے پہلے پوری معلوم تاریخ میں علمی آزادی کا وجود نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے میں سائنسی غوروفکر کی بعض انفرادی مثالیں ملتی ہیں۔ مگریہ غوروفکر وقتی یا انفرادی واقعہ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ ذہنی آزادی نہ ملنے کی وجہ سے ایسی ہر سوچ پیدا ہو کر ختم ہوتی رہی۔

اسلام نے پہلی بار یہ انقلابی تبدیلی کی کہ مذہبی علم اور طبیعاتی علم کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا۔ مذہبی علم کا ماخذ خدائی ا لہام قرار پایا، جس کا مستند ایڈیشن ہمارے پاس قرآن کی صورت میں محفوظ ہے۔ مگرطبیعاتی علوم میں پوری آزادی دے دی گئی کہ آدمی ان میں آزادانہ تحقیق کر ے ،اور آزاد انہ طور پر نتائج تک پہنچ سکے۔

صحیح مسلم میں ایک باب کا عنوان ان الفاظ میں قائم کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ شرعی طو ر پر کہا ہو اس کا ماننا لازمی ہے۔ مگر معیشتِ دنیا کے بارے میں آپ کا قول اس سے مستثنیٰ ہے :

بَابُ وُجُوبِ امْتِثَالِ مَا قَالَهُ شَرْعًا، دُونَ مَا ذَكَرَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَعَايِشِ الدُّنْيَا، عَلَى سَبِيلِ الرَّأْيِ

اس باب کے تحت امام مسلم نے یہ روایت نقل کی ہے کہ موسیٰ بن طلحہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسے لوگوں پر گزرا جو کھجور کے درخت پر چڑھے ہوئے تھے۔ آپ نے پوچھا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ تلقیح (pollination) کا عمل کر رہے ہیں۔ یعنی مذکر کو مونث پر مار رہے ہیں تو اس سے وہ زرخیز ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں گمان نہیں کرتا کہ اس سے کچھ فائدہ ہو گا۔ یہ بات لوگوں کو بتائی گئی تو انھوں نے تلقیح کا عمل چھوڑ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے کہا : اگر اس سے ان کو نفع ہوتا ہو تو وہ ایسا کریں۔ کیوں کہ میں نے صرف ایک گمان کیا تھا تو تم میرے گمان کی پیروی نہ کرو۔ مگر جب میں تم سے اللہ کی کوئی بات کہوں تو اس کو اختیار کر لو۔ کیوں کہ میں اللہ عزوجل کے بارے میں کبھی جھوٹ نہیں کہتا(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2361)۔

اسی طرح حضرت عائشہ اور حضرت ثابت اور حضرت انس سے یہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گروہ کے پاس سے گزرے جو تلقیح کا عمل کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: اگر وہ ایسا نہ کرتے تو زیادہ بہتر تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد کھجور کی پیداوار بہت کم ہوئی۔ آپ دوبارہ ان کے پاس سے گزرے اور پوچھا کہ تمہارے کھجوروں کا کیا ہوا۔ انھوں نے پورا قصہ بتایا۔ آپ نے فرمایا : تم اپنے طریقہ کے مطابق کرو ، کیونکہ تم اپنی دنیا کے بارے میں زیادہ جانتے ہو (أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ)۔صحیح مسلم، حدیث نمبر 2363۔

اس حدیث کے مطابق ، اسلام میں دینی بحث کو سائنسی تحقیق (scientific research) سے الگ کر دیا گیا ہے۔ دینی بحث میں الہامی ہدایت کی کامل پابندی کرنی ہے۔ مگر سائنسی تحقیق کو انسانی تجربے کی بنیاد پر چلانا ہے۔ یہ علم کی تاریخ میں بلاشبہ عظیم الشان انقلاب ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom